امریکہ کس نے دریافت کیا تھا …؟

America

America

تحریر:علی عمران شاہین

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے یہ کہہ کر کہ ”امریکہ مسلمانوں نے کولمبس سے 300 سال پہلے دریافت کر لیا تھا”، ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ انہوں نے ایک ایسی حقیقت بیان کر دی کہ جس کو کوئی ٹھکرا نہیں سکتا اور اگر ٹھکرائے تو تردید سامنے لا نہیں سکتا۔ ویسے تو ایک سربراہ مملکت کی جانب سے ایسا ا علان ویسے بھی حیران کن لگتا ہے اور پھر وہ رجب طیب اردوان ہوں کہ جنہوں نے مصطفی کمال پاشا کے باطل نظریے سے بغاوت پر مبنی ترکی کی بنیاد رکھی اور ملک کو تعمیر و ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے جس کا تصور کبھی محال تھا۔ اسی لئے تو جب ان کے حوالے سے یہ خبر دنیا کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی ورلڈ نے نشر کی تو ساتھ ہی لکھا کہ ”ترک صدر کا تعلق ملک کی اسلام پسند سیاسی جماعت سے ہے۔

پتہ چلا کہ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں لاطینی امریکہ کے مسلمان رہنمائوں کی ایک کانفرنس جاری تھی جس کے خاص مہمان جناب طیب اردوان تھے وہاں انہوں نے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ اسلام اور لاطینی امریکہ کا تعلق 8 صدیاں قبل ہی استوار ہو چکا تھا اور مسلمان 1178ء میں یہاں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے یہاں ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی جس کا ذکر خود کولمبس نے بھی کیا تھا۔
دنیا تو آج تک تسلیم کئے بیٹھی ہے کہ کرسٹوفر کولمبس وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے 12 اکتوبر 1492ء کو موجودہ براعظم امریکہ کے جزائر (ویسٹ انڈیز) کے ایک جزیرے سان سالویڈور کیریبین پر قدم رکھا تھا۔ اسے پتہ تو نہ چلا تھا کہ وہ کہاں پہنچا ہے؟ سو اس کا خیال تھا کہ وہ انڈیا پہنچ گیا ہے

پھر اس نے اس کا نام ویسٹ انڈیز رکھ دیا (یعنی مغربی انڈیا) وہ اس حوالے سے اپنے سفر کیلئے سپین سے روانہ ہوا تھا اور پھر سمندر میں گھومتے گھومتے بالآخر اس جزیرے میں جا اترا اور یوں امریکہ دریافت ہو گیا، حالانکہ مسلمانوں کے امریکہ کی سرزمین میں سب سے پہلے قدم رکھنے کے کئی مستند ترین حوالے پہلے سے موجود ہیں۔

سپین (اندلس) میں مسلمانوں کے آخری مرکز یعنی غرناطہ کا سقوط جنوری 1492ء میں ہوا تھا۔ اس سقوط کے بعد عیسائیوں نے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ آج کے مسلمانوں پر بھارتی، برمی اور افریقی اقوام کے مظالم بھی شرما جائیں۔ ان کو زندہ جلایا گیا یہاں تک کہ بے شمار مسلمانوں کو محض جانیں بچانے کیلئے کیتھولک عیسائی بننا پڑا تھا، اس عرصہ میں جب اندلس کے عیسائیوں نے مظلوم مسلمانوں کو خطے سے بھگایا تو ان میں سے بھی کئی براعظم امریکہ کے ان جزائر تک پہنچے تھے۔

اس سے پہلے مسلمان مورخ اور جغرافیہ دان ابو حسن علی ابن الحسن المسعودی (871ء تا 951ئ) نے اپنی کتاب ”مروج الذہب و معدن الجواہر” میں لکھا کہ اندلس کے مسلمان خلیفہ عبداللہ بن محمد (888ء تا 912ئ) کے دور میں قرطبہ کا ایک مسلمان جہاز ران خشخاص ابن سعید ابن اسود اندلسی بندرگاہ ڈیلبا (پالوس) سے 889ء میں روانہ ہوا اور بحر اوقیانوس پار کر کے ایک نامعلوم خطے میں پہنچا اور پھر اپنے ساتھ عجیب و غریب مال و دولت کے ساتھ لوٹا۔ المسعودی نے دنیا کا جو نقشہ بنایا اس میں بحر ظلمات (یعنی بحر اوقیانوس) میں بہت بڑا علاقہ نامعلوم دکھایا گیا ہے۔

اسی حوالے سے ایک اور مسلمان مورخ ابو بکر ابن عمر نے لکھا ہے کہ اندلس کے خلیفہ ہشام ثانی کے دور میں غرناطہ کا ایک مسلمان جہاز ران ابن فرخ فروری 999ء میں بحر اوقیانوس میں سفر کرتا ہوا گینڈو (جزیرہ گریٹ کناری) پر پہنچا اور وہاں کے حکمران سے ملاقات کی۔ اس نے پھر مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور دو جزائر دیکھے۔ اس نے ان جزائر کے نام کیپریریا اور پلوٹینیا رکھے۔ وہ مئی 999ء میں واپس اندلس پہنچا۔

Muslim

Muslim

ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف امریکی مورخ اور ماہر لسانیات لیوویز نے اپنی کتاب ”افریقہ اینڈ دی ڈسکوری آف امریکہ” (1920ئ) میں لکھا ہے کہ کولمبس نئی دنیا میں مینڈنکا (مغربی افریقہ کے حبشی قبائل) کے وجود سے آگاہ تھا۔ مغربی افریقہ کے مسلمان پورے کیریبین، وسطی، جنوبی اور شمالی امریکہ کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں کینیڈا کے علاقے بھی شامل تھے۔ یہاں مسلمان نہ صرف تجارت کرتے بلکہ یہاں کے انڈین قبائل میں شادیاں بھی کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی جغرافیائی شہادتیں بھی موجود ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے بحراوقیانوس میں سفر کرکے ایسے جزیرہ پر قدم رکھا تھا جہاں انسان بھی تھے اور زراعت بھی تھی۔ اس حوالے سے مشہور مسلمان جغرافیہ دان اور نقشہ نویس الشریف الادریسی (1099ء تا 1166ئ) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے شمالی افریقہ کے ملاحوں کے ایک گروہ نے لزبن (پرتگال) سے بحر اوقیانوس میں سفر کیا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے اور اس کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں؟ …مغربی جزیروں پر انسان بھی تھے اور زراعت بھی۔

اسی طرح سے اس خاص حوالے سے دیگر مسلم مورخین جن میں شہاب الدین ابوالعباس احمد بن فضل العمری (1300ء تا 1338ئ) شامل ہے، نے ایسے سفر کا ذکر کیا ہے اور جغرافیائی تفصیل بیان کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ کولمبس نے بھی جو بحر اوقیانوس میں 2400 کلو میٹر سفر کیا تھا، اس حوالے سے اسے معلومات مسلمان تاجروں کے نقشوں اور المسعودی کی کتاب ”اخبار الزمان” (دنیا کی تاریخ) سے ملی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کولمبس کے اس پہلے سفر میں 2 مسلمان کپتان بھی اس کے عملے کے رکن تھے جو طویل بحری سفر کے ماہر تھے اور انہوں نے ہی کولمبس کی بحری مہمات کو منظم کرنے میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی تھی۔

یعنی یہ وہ کیفیت ہے جو کہ آج کل بڑی بڑی پہاڑی چوٹیاں سر کر کے اپنے نام کرنے والوں کے حوالے سے نظر آتی ہے۔ بڑے بڑے اور نامی گرامی کوہ پیما جن کا نام دنیا جانتی اور تاریخ مانتی ہے، انہیں چوٹیوں تک لے کر جانے والے وہاں کے مقامی وہ باشندے ہوتے ہیں جو ان کی نہ صرف رہنمائی کرتے ہیں بلکہ ان کا سامان بھی اٹھاتے ہیں اور پھر انکو چوٹیوں تک پہچانے کے راستے بھی بناتے، اوپر چڑھ کر رسیاں باندھتے اور انہیں کندھوں پر اٹھا کر اوپر چڑھاتے ہیں۔ لیکن بار بار چوٹیاں سر کرنے والے یہ لوگ تاریخ کے کسی کونے کھدرے میں بھی نظر نہیں آتے۔ ریکارڈ اور تاریخ میں نام ان لوگوں کا آتا ہے جنہیں آج دنیا جانتی ہے۔

اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور خاص کر کے ٹو کا خود سفر کر کے وہاں کے ایسے بے شمار، لوگوں سے مل سکتا ہے جو بارہا کے ٹو سر کرتے ہیں لیکن وہ انہی پہاڑیوں میں دفن ہو جاتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں جانتا جبکہ دنیا میں کے ٹو سمیت تمام چوٹیاں سر کرنے والے کوئی اور ہی لوگ ہیں جو معروف ہیں حالانکہ وہ تو خود دوسروں کے کندھوں کے سہارے چوٹیاں سر کر رہے ہوتے ہیں اور دوبارہ جانے کا نام بھی نہیں لیتے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے، ترکی کے صدر نے جس حوالے سے بات کی ہے اس کے مطابق کولمبس نے اپنی تحریروں میں اعتراف کیا ہے کہ جب اس کا جہاز کیوبا کے شمال مشرقی ساحل پر گبارا کے نزدیک سفر کر رہا تھا تو اس نے پہاڑی کی چوٹی پر خوبصورت مسجد دیکھی۔ یاد رہے کہ آج کے دور میں کیوبا، میکسیکو، ٹیکساس اور نیو اڈا میں مساجد اور میناروں کے کھنڈر اور قرآنی آیات کے نقش ملے ہیں۔ بات صرف اتنی نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکہ اور کینیڈا میں 565 مقامات (دیہات، قصبوں، شہروں، پہاڑوں، ندیوں، دریائوں وغیرہ) کے نام، اسلامی اور عربی اسماء و الفاظ سے ماخوذ ہیں۔ امریکہ میں ایسے 484 اور کینیڈا میں 81 نام ہیں۔ ان جگہوں کے نام کولمبس سے پہلے یہاں کے اصل باشندوں نے رکھے تھے۔ ترک صدر اپنے ملک میں اسلام کے احیاء کی تحریک لے کر کھڑے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کی جرات ہوئی ہے کہ وہ کھل کر بات کر سکیں ورنہ غیر مسلموں سے مرعوب اذہان و افکار کے اشخاص ایسی جرات کیسے کر سکتے تھے۔ اس جرات کو جس نے اسلام مخالفین کے منہ بند کر دیئے، ہمارا بھی سلام

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین