اہلیان تھر کے بے بسی اور حکومتی بے حسی

Tharparkar

Tharparkar

تحریر:مہر بشارت صدیقی

تھر پارکر میں غذائی قلت اور حکومتی لاپروائی کے باعث ایک ہی روز میں مزید 11 بچے جان سے گئے جس کے بعد غذائی قلت اور امراض سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 84 ہوگئی۔ تھرپارکر کے باسی امداد کے انتظار میں بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔لیکن لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ چھاچھرو اور ڈاھلی کے سیکڑوں دیہات میں امدادی گندم نہیں پہنچ سکی جبکہ سیکڑوں کنویں خشک ہونے کی وجہ سے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس کر رہ گئے ہیں۔سول ہسپتال مٹھی میں پانچ و دس دن کے دو بچے اور 9ماہ کی بچی ، تحصیل چھاچھرو میں 8 ماہ ، 12سال اور 9 سال کی لڑکیاں جبکہ 2 سال اور سات دن کے بچے انتقال کرگئے۔ ڈیپلو کے دو دیہات میں 6 دن کا بچہ، 9 دن کی بچی اور ایک ماہ کا بچہ غذائی قلت کے باعث دم توڑ گیا۔ اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اور اب بھی درجنوں بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق تھرکے سرکاری ہسپتالوں میں غذائی قلت کے باعث 2011ء سے 31 اکتوبر 2014ئ تک 1600 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ اموات کی وجہ غذائی قلت کے علاوہ قبل از وقت پیدائش اور وزن کی کمی بھی ہے۔ اموات کی وجہ غذائی قلت، قبل از وقت پیدائش اور وزن کی کمی ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مقامی افراد کے مطابق مقامی وڈیروں اور سیاسی مداخلت کے باعث غریب اور متاثرہ لوگوں کو گندم نہیں مل رہی۔ ڈپٹی کمشنر تھرپارکر آصف جمیل کے مطابق 2 دسمبر 2013 سے لے کر17 نومبر 2014ء تک پانچ سال سے کم عمر کے 293 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ محکمہ ریونیو کی جانب سے تصدیق کرائی گئی

تو 220 بچوں کے لواحقین کا تعلق تھر سے تھا۔ اب معاوضہ دیا جائے گا تو کئی دیگر مسائل سامنے آئیں گے اگر بچے کی حالت تشویش ناک ہے تو بھی اس کو ہسپتال میں لایا جائے گا کہ اگر فوت ہو گیا تو بھی رجسٹرڈ تو ہو گا اور اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جائے گا۔ تھر کے ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کی ہے کہ 7 بچوں کی ہلاکت غذا کی کمی کے باعث ہوئی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک بچے کی بھی ہلاکت بھوک سے نہیں ہوئی۔ ضلعی افسر صحت ڈاکٹر عبدالجلیل نے بتایا کہ نومولود بچوں کی ہلاکتوں کی چار وجوہات ہیں۔ سرفہرست کم وزن’ وقت سے پہلے پیدائش، برتھ اے سفکیزیا جس میں نومولود بچوں کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اور چوتھا سپیس جس میں دائی بچے کی پیدائش کے وقت صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی۔

ڈاکٹر جلیل نے خوراک کی قلت کو تسلیم کیا اور کہاکہ ماں کی صحت اچھی نہیں ہو گی تو یقیناً بچہ کمزور پیدا ہو گا۔جب بارشیں نہیں ہوتیں اور قحط پڑ جائے تو مناسب غذا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ماں کمزور ہوتی ہے۔مسلم لیگ ن کی رہنما ماروی میمن کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی نے تھرپارکر میں پانی کے جو پلانٹ لگائے ان میں سے زیادہ تر کاغذ پر ہیں۔ سندھ حکومت نے مٹھی میں حالات بہتر کر لیے، مگر اسلام کوٹ سمیت تھر کے دیگر علاقوں میں ڈاکٹر موجود نہیں۔ تھر کی بہتری کے لیے وفاقی حکومت اقدامات کر رہی ہے۔وزیراعظم نواز شریف جلد ہی تھرپارکر کے خشک سالی سے متاثرہ لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے خصوصی امدادی پیکیج کا اعلان کریں گے۔میں نے وزیراعظم کی ہدایات پر خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور تھر کی موجودہ صورتحال پر وزیراعظم کو رپورٹ پیش کروں گی۔ اگرچہ خشک سالی ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت اس پر کوئی سیاست نہیں کرے گی بلکہ علاقہ میں امدادی سرگرمیوں پر توجہ دے گی۔

وفاقی حکومت نے عوام کو پینے کے صاف پانی اور خوراک سمیت درپیش مسائل کے حل کا تہیہ کر رکھا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف کی ہدایت پر تھرپارکر میں قحط اور خشک سالی سے سخت متاثر ہونے والے افراد کی بحالی کیلئے ریلیف کے کاموں کو مزید تیز کردیا گیا ہے ، تھرپارکر کے دور دراز علاقوں میں ہونیو الی پے درپے اموات کے پیش نظر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹروں کی مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر شامل ہیں ، یہ ٹیمیں دور دراز علاقوں میں جاکر بیمار افراد کا نہ صرف علاج کررہی ہیں بلکہ انہیں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بھی آگاہی فراہم کی جارہی ہے

جبکہ تھر پارکر کی تحصیل چھاچھرو، ڈیپلو، ننگر پارکر، اسلام کوٹ، مٹھی کے دور افتادہ دیہاتوں میں متاثرین کے سروے کیلئے ٹیمیں بھی روانہ کردی گئی ہیں جو ایک ہفتے کے اندر اندر اپنا سروے مکمل کرکے متاثرین کیلئے مزید امداد پہنچنا شروع کردیں گی۔ کئے گئے سروے کے مطابق تھرپارکر کے زیادہ متاثر ہونے والے دیہاتوں رانی جو تڑ، کھارو بجیر، ملہارالدین بجیر، پاپوہر، گلاب جو تڑ، تراڑ کھڑ، ویہلنجا کاری ہر، پاندیلو، گنگا لس، کیکاری شاہ، جتراڑ، مورانو، گولیو اور دیہی علاقوں میں 350 بیگ راشن کے تقسیم کئے گئے، جنوری 2014ء سے اب تک راشن کی تقسیم کے سلسلے میں 28ہزار 795 افراد تک خشک راشن تقسیم ، 43 ہزار 790 مریضوں کا مفت علاج کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی جانب سے تھرپارکر میں پانی کی قلت کے پیش نظر دور دراز صحرائی علاقوں میں 650 کنوئیں کھدوائے گئے ہیں ، جبکہ 180 کنوئوں کی تعمیرات کا مزید کام جاری ہے۔

Ayaz Latif Paleejo

Ayaz Latif Paleejo

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن گزشتہ 13 سال سے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کام کررہی ہے اور آنے والے وقت میں بھی اس کام کو مزید وسعت دی جائیگی۔ ایاز لطیف پلیجو کہتے ہیں کہ تھر میں سندھ حکو مت کی غفلت منظر عام پر آگئی ہے، صوبائی وزراء تھر کی خواتین کی توہین کر رہے ہیں، ان کو اس بات پر شرم آنی چاہیے ، پیپلز پارٹی کے وزراء کرپشن کر کے مال بنانے میں مصروف ہیں، تھر میں بچوں کی اموات پر حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں ہے، عمر کوٹ ضلعے میں اسپتال بند ہیں، حکمران صرف مٹھی تک محدود ہیں، تھر کے عوام کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا ہے، اسپتالوںمیں کوئی سہولت میسر نہیں ہے، پلانٹ ناکارہ ہو چکے ہیں

حکمرانوں کی لاپروائی کی وجہ سے آج معصوم بچوں کی جانیں جارہی ہیں اور ماوں کی گود یں اجڑ رہی ہیں ، ان معصوم بچوں کی اموات کی ایف آئی آر پیپلز پارٹی کے وزراء اور وزیراعلیٰ کیخلاف درج ہونی چاہئےْ۔ سندھ حکومت تھر جا کر اجلاس کرتی ہے، لیکن قحط سے متاثرہ عوام کے پاس جانے کیلئے وزراء کو وقت نہیں ملتا، مویشی بھی بھوک سے مر رہے ہیں، مگر لائیو اسٹاک کے وزیر اور سیکریٹری سو رہے ہیں، وہ صرف اپنے فارم ہاوس میں موجود مویشیوں کی دیکھ بحال کیلئے دستیاب ہیں، دنیا کے چھٹے بڑے کوئلے کے ذخائر کے وارث تھر کے عوام کو بھوک سے تڑپا تڑپا کر مارا جارہا ہے، سندھ حکومت کو چاہیے کہ صرف اجلاس کرنے اور فوٹو سیشن کرنے بجائے جنگی بنیادوں پر اقدامات کر کے قحط سے متاثرہ عوام کو ریلیف فراہم کرے ، اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواوں کی کمی کو پورا کیا جائے، پینے کے صاف پانی کا بندوبست کرنے کیلئے پلانٹ لگائے جائیں اور مویشیوں کیلئے چارے کا بندوبست کیا جائے۔

Mehr Basharat Siddiqui

Mehr Basharat Siddiqui

تحریر:مہر بشارت صدیقی