نس بندی کا واقعہ اور رحم مادر میں قتل جنین!

Hospital

Hospital

تحریر: محمد آصف اقبال

گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ کے علاقہ بلاسپور کے پینڈار گاؤں میں مرکزی خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے تحت نس بندی کیمپ لگایا گیا۔ جس میں گاؤں والوں کا الزام ہے کہ سرکاری ہدف پورا کرنے کی جلد بازی میں صرف چھ گھنٹے کے دوران ہی ضلع اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر 83 خواتین کی نس بندی کر دی۔ نس بندی کی جانے والی خواتین چند ہی گھنٹوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو گئیں ۔اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 خواتین اپنی جان کھو چکی ہیں اور بقیہ مسائل سے دوچار ہیں۔ مرنے والی ایک خاتون جانکی بائی کے شوہر کا کہنا ہے کہ نس بندی سے پہلے دوا کھاتے ہی کئی خواتین کو قے ہونے لگی تھی لیکن ڈاکٹر نے ان کی طرف توجہ نہیں دی اور عورتوں کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

وہیں دوسری طرف اینٹی بائیو ٹک دوا کی ابتدائی جانچ میں چوہے مارنے میں استعمال ہونے والا کیمکل پایا گیا ہے۔یہی نہیں دوا بنانے والی کمپنی کو دو سال پہلے بلیک لسٹ کیا جا چکا تھا، مگر حکومت اس سے اب بھی دوائیں خرید رہی تھی۔اینٹی بائیو ٹک ٹیبلیٹ سپر وفلاکسیسن 500 کی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ اس میں زنک فاسفائڈ ملا ہوا تھا۔یہ کیمکل چوہے مارنے کے لے استعمال ہوتا ہے۔واقعہ کے بعدبرانگیختہ و مشتعل مقامی شہریوں اور حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے لوگوں نے ریاست کے وزیر صحت امر اگروال کی رہائش گاہ کا بلاسپور میں محاصرہ کرلیا۔

حکومت نے سرکاری کیمپ میں 83 سے زیادہ خواتین کا نس بندی آپریشن کرنے والے ڈاکٹر آر کے گپتا اور سی ایم ایچ او ڈاکٹر بھاگے کو برطرف بھی کر دیا ہے۔ پہلے ان افراد کو معطل کیا گیا تھا۔ادھر حکومت کی کارروائی سے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن ناراض ہے۔ ایسوسی ایشن کا الزام ہے کہ یہ پورا معاملہ ناقص ادویات کی فراہمی کا ہے لیکن حکومت ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔دوسری طرف ریاست کے وزیر صحت امر اگروال نے کا کہنا ہے کہ وہ اخلاقی طور پر اس واقعہ کے لیے ذمہ دار ہیں۔لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں کانگریس متاثرین کے دکھ دور کرنے میں تعاون کے بجائے لاشوں پر سیاست کر رہی ہے۔

نس بندی کا واقعہ اور اس میں غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر کے تعلق سے سوال یہ نہیں ہے کہ برسراقتدار اور حزب اختلاف کا عمل کیا ہے۔بلکہ ہماری سمجھ کے مطابق اس موقع پر لازما ً یہ سوال اٹھنا چاہیے کہ نس بندی کی ضرورت کس کوہے؟ اور کیوں؟اور وہ کون سے مقاصد ہیں جن کے پیش نظر خاندانی منصوبہ بندی کے یہ اور اس طرح کے پروگرام چلائے جاتے ہیں؟کیونکہ معاملہ خاندانی منصوبہ بندی کا نہیں ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ غریبوں اور ضرورت مندشہریوں کے حقوق کس طرح پامال کیے جائیں۔ خواتین پر جاری ظلم و استحصال کو کیسے جاری رکھا جائے۔اور وہ محترم عورت جس کو آج سماج نے ذلت آمیز مقام دیا ہے،وہ کس طرح جاری رکھا جائے۔لہذااگر ایسا نہیں ہے،تو پھر کیوں رحم مادر میں قتل جنین کے واقعات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں؟

کیوں خواتین کی عزت و آبرو اور ان کی عفت و عصمت سے کھلواڑ میں اضافہ ہورہا ہے ؟اور کیوں “مہذب دنیا “کے تاجرین اُن کو بازار میں ایک فروخت کی جانے والی اشیاء کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس واقعہ اور اس پر جاری سیاست کی باآسانی نظر توہو جائیں گے لیکن نہ حزب اختلاف اور نہ ہی برسر اقتدار اِن سوالوں کا پوسٹ مارٹم کریں گے اور نہ ہی تشخیص کی جانب پیش قدمی کی جائے گی۔لیکن اس موقع پر ان لوگوں کو لازماً متوجہ ہونا چاہیے جو یا تو سیاست سے خود کو بالاتر سمجھتے ہیں یا وہ لوگ جو اقدار پر مبنی سیاست کے خواہاں ہیں۔لیکن اگر یہ دونوں ہی قسم کے افراد و گروہ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو پھر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ درحقیقت ماہرینِخطابت عدل کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

دراصل خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد نسل کی افزائش کو روکنا ہے۔قدیم زمانے میں بھی اس کا وجود تھا۔لیکن اس زمانے میں یہ تحریک زیادہ منظم نہ تھی۔قدیم دور میں افزائش نسل کو روکنے کے لیے عزل،اسقاط حمل ،قتل اولاد اور ضبط نفس کے طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔یورپ میں اس تحریک کی ابتداء اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخرمیں ہوئی۔اس کا پہلا محرک غالبا انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات Malthus تھا۔ اس کے عہد میں انگریزی قوم کی روز افزوں خوشحالی کے سبب سے انگلستان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھنی شروع ہوئی ۔اُس نے حساب لگایا کہ اگر نسل اپنی فطری رفتار کے ساتھ بڑھتی رہے تو زمین اس کے لیے تنگ ہوجاے گی،وسائل معاش کفایت نہ کرسکیں گے،لہذا نسل انسانی کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی افزائش اس سے آگے نہ بڑھنے پائے،اس غرض کے لیے اس نے برہم چرچ کے قدیم طریقے رائج کرنے کا مشورہ دیا،یعنی بڑی عمر میں شادی کی جائے اور ازدواجی زندگی میں ضبط سے کام لیا جاے۔

ان خیالات کا اظہار اس نے اپنے رسالہ “آبادی اور معاشرے کی آیندہ ترقی پر اس کے اثرات”میں پیش کیے تھے۔اس کے بعد Frances Place نے اخلاقی ذرائع چھوڑ کر دوائوں اور آلات کے ذریعہسے منع حمل کی تجویز پیش کی۔اس رائے کی تائید میں 1833ء میں ایک مشہور ڈاکٹر چارلس نولٹن نے پلاس کی تائید کی اورمنع حمل کے طبی طریقوں کی تشریع کی نیزان کے فوائد پر زور دیا۔

India

India

انیسویں صدی کے ربع آخر میں ایک نئی تحریک اٹھی جو نو مالتھی تحریک کہلاتی ہے۔1877ء میں ڈاکٹر ڈریسڈل کی زیر صدارت ایک انجمن قائم ہوئی۔جس نے ضبط ولادت کی تائید میں نشر و اشاعت شروع کی۔اس کے دو سال بعد مسز سینٹ کی کتاب “قانون آبادی” شائع ہوئی، 1881ء میں یہ تحریک یالینڈ، بیلجیم،فرانس اور جرمنی میں پہنچی اوراس کے بعد رفتہ رفتہ یورپ اور امریکہ میں پھیل گئی۔اس کے لیے باقاعدہ انجمنیں قائم ہوئیں جو ضبط ولادت کے فوائد اور عملی طریقوں سے آگاہ کیا کرتی تھیں نیزاس کو اخلاقی نقطہ نظرسے جائز اور معاشی نقطہ نظر سے مفید بتاتی تھیں۔ دوسری جانب براعظم ہند و پاک میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ 1931ء کے مردم شماری کے کمشنر ڈاکٹر ہٹن نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرناک ظاہر کرنے کے لیے ضبط ولادت کی ترویج پر زور دیا۔اور کچھ زیادہ مدت نہ گزی تھی کہ ہندوستان نے اس تحریک کو ایک قومی پالیسی کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔

گرچہ خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق دنیا کے تمام مذاہب میں صریح احکام و نواہی موجود نہیں ہیں،لیکن پھر بھی ہرایک مذہب میں کثیرالعیل ہونے کی ترغیب و تحریص موجود ہے۔اسلام چونکہ عالمگیر مذہب ہیلہذاقرآن حکیم میں ایک سے زیادہ مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :”اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو”۔اسی طرح نکاح کے لیے زیادہ اولاد والے خاندان کو ترجیح دینا احادیث سے ثابت ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی”عزل “کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ اس کی اجازت کے متعلق جو روایات ہیں ان کی حقیقت بس یہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے محض اپنی مجبوری اور حالات بیان کیے اور آپۖانھیں اپنے سامنے رکھ کر کوئی مناسب جواب دے دیا ،انکا تعلق صرف انفرادی ضروریات اور استثنائی حالات سے تھا۔ضبط تولید کی عام دعوت و تحریک ہرگز پیش نظر نہ تھی۔نہ ایسی تحریک کا مخصوص فلسفہ تھا

جو عوام میں پھیلایا جا رہا ہو۔عزل سے متعلق جو بات آپۖ سے منقول ہیں ان سے اگر عزل کا جواز بھی ملتا تھا تو ہرگز ضبط ولادت کی اس عام تحریک کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ،جس کی پشت پر ایک باقاعدہ ،خالص مادہ پرستانہ فلسفہ کارفرما ہے۔ایسی کوئی تحریک اگر آپۖ کے سامنے اٹھتی تو مجھے یقین ہے کہ آپۖاس پر لعنت بھیجتے اور اس کے خلاف ویسا ہی جہاد کرتے جیسا آپ نے شرک اور بت پرستی کے خلاف کیا۔مولانا مفتی محمد شفیع”ولا تقتلوا اولادکم خشیتہ املاق”کے تعلق سے لکھتے ہیں:اس آیت کریمہ سے اس معاملے پر بھی روشنی پڑتی ہے،جس میں آج کی دنیا گرفتار ہے۔وہ کثرت آبادی کے خوف سے ضبط تولید اور منصوبہ بندی کو رواج دے رہی ہے

اس کی بنیاد بھی اس جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق کا ذمہ دار اپنے کو سمجھ لیا گیا ہے،یہ معاملہ قتل اولاد کے برابر نہ سہی مگر اس کے مذموم ھو نے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نس بندی ہو یا قتل جنین یہ دونوں ہی معاملات سماج کی اس خستہ حالی کو پیش کرتے ہیں جس میں لڑکی کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے،لڑکے سے کمتر لڑکی کی حیثیت کے پیش نظر ہی شادی کے وقت بڑی بڑی رقمیں جہیز کی شکل میں ادا کرنی ہوتی ہیں۔گرچہ مسائل کے حل اور نومولود بچی کی جان کی حفاظت کے لیے حکومت مختلف اسکمیں چلا رہی ہے ،اس کے باوجود اعداد شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں 1981 میں پیدائش تا 6سال کی عمر کی بچوں کا اوسط جو 1000 :962 تھا وہ 1991 میں945، 2001 میں 927 اور 2011 میں 914 ہی رہ گیا ہے۔

حقیقت میں قتل جنین ،نس بندی اور خاندانی منصوبہ بندی کاایک پہلو ہے۔جبکہ دوسری طرف اس کے معاشی و معا شرتی،اور اخلاقی و تمدنی مضر اثرات کیا ہیں؟اگر وہ جان لیے جائیں جو یہ حقیقت پوری طرح آشکارہ ہو جائے گی کہ متذکرہ عمل کے نتیجہ میں ملک عزیز ترقی و خوشحالی کی جانب نہیں بلکہ تنزلی اور بحران میں بری طرح گھرتا جا رہا ہے۔اس پوری گفتگو کے پس منظر میں ضرورت ہے کہ ہر دو پہلوئوں سے نس بندی کے واقعہ کو موضوع بحث بنایا جائے!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر: محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com