ایک سو اکیسواں کالم !

Writing

Writing

تحریر : اختر سردار چودھری
کالم نگاری کیا ہے ادب، شاعری، تقریر، سیاست حکایت، داستاںگوئی، کا نام ہے کالم نگار کا قلم معاشرے کے ناسور پر نشترلگاتا ہے، راہ دیکھاتا ہے، گمراہ کرتا ہے مسائل بیان کرتا ہے ان کا حل بھی بتاتا ہے حقیقی کالم نویسی آسان نہیں ہے ،بہت مشکل ہے ،اس کے لیے سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے ،اس بارے میں معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں ،منوں کے حساب سے پڑھنا پڑتا ہے ۔”لکھنا ادیب کی ایک سماجی ذمہ داری ہے ،تاہم دنیا میں سب سے مشکل کام لکھنا ہے ۔۔ ایک ماشہ ادبی تحریر کو معرض وجود میں لانے کے لیے ایک من علم بلونا پڑتا ہے” (شیرازہ ،جاوید اختر چودھری صفحہ 80 ) پھر اس موضوع کا ماضی حال دیکھنا پڑتا ہے ،اپنے تجربات اور علم کو سامنے رکھ کر سچ جھوٹ الگ کرنا پڑتا ہے ،پھر اس سارے پڑھے،سنے ،تجربے،مشاہدے کو اپنے الفاظ میں بیان کرنا پڑتا ہے،ہر کالم نویس کا ایک مخصوص انداز بیاں ہوتا ہے. یہ انداز بیاں ہی کسی حد تک کالم نویس کو مقبول بناتا ہے۔

کالم لکھتے وقت جملوں ،گرائمر،الفاظ کا خیال رکھنا ،کتنے الفاظ میں مدعا بیان کرنا ہے ،اکثر قاری کی پسند و نا پسند کو مد نظر رکھ کر لکھنا پڑتا ہے ،اس لکھے کو دو چار بار پڑھنا ہوتا ہے ،تنقیدی نگاہ سے ،درستگی کر کے ،پھر اسے ان پیج میں لکھنا اور میل کرنا اب آگے اخبارات کے دفتر میں اس کالم کو جنہوں نے سلیکٹ کرنا ہوتا ہے وہ اپنے اخبار کی پالیسی ،اپنی پسند نا پسند،اور اپنے علم کے تجربے کے مطابق آنے والے کالموں میں سے چند ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے ،ان کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے پھر جا کے کالم اخبار میں شائع ہوتا ہے۔

مغرب میں ہی نہیں پاکستان میں بھی حکومت یا اپوزیشن، عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے کالم نویسوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔اس کے بدلے میں ان کوشاباش ملتی ہے، لفافہ ملتا ہے ۔آج کل کالم نویس کو لفافہ دینے کی بجائے اخبار کے مالک کو ہی خرید لیا جاتا ہے ،تا کہ ان کے خلاف وہ اخبار نہ لکھے ،اسے اخبار کی پالیسی کہتے ہیں حق سچ جیسا ہے اسے ویسے کا ویسا عوام تک ابلاغ کرنے والے اخبار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ۔ایسے اخبار ات کو اشتہار نہیں ملتے ،جو کہ اخبار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض کالم نویس ظالموں کے خلاف لکھتے ہیں اور بعض ان کے ظلم کا بھی دفاع کرتے ہیں۔بعض پورا سچ ،بعض آدھا ،بعض سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپاتے ہیں ،کچھ جوازا ور دلیل کا نام دے کر بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں ،اپنی عقل کا سکہ منواتے ہیں اور اس سے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔

Girl Writing

Girl Writing

دوسری طرف بہت سے کالم نویس اپنا نام ہی کسی اخبار میں شائع کروانے کے لیے آرٹیکل لکھتے ہیں ،فیچر لکھتے ہیں ،دن رات محنت کرتے ہیںوغیرہ ،ہم کالم نگاروں کو پانچ خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جو کسی ایک جماعت سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ دوسری قسم کے کالم نگار نہیں ہیںلیکن اخبارات کے ادارتی صفحہ پر پہنچ رکھتے ہیں چوری ،یا ادھر کا مال ادھر کرنے سے کالم نویس بنے ہوئے ہیں اور مشہور ہونے کے ساتھ مالی فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں تیسری قسم ایسے کالم نگار ہیںجوغیرجانبدار ہیں، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں،کالم نگاری کی عزت انہی کے دم سے ہے۔ ان تینوں اقسام کے کالم نگاروں کے کالم قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔

چوتھی قسم ان کی ہے جو فری کالم نویسی کر رہے ہیں ،زیادہ تر کے کالم ،درمیانے اخبارات اور لوکل اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور سب سے مظلوم کالم نویس وہ ہیں جو سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے لیٹر ٹو ایڈیٹر میں شائع ہوتے ہیں ۔ان کے کالم اکثر چوری ہوتے رہتے ہیں ۔موجودہ عہد میں کالم نگاروں کی جو نئی کھیپ تیار ہو رہی ہے ان میں سے اکثریت کی کوئی اخبار نہ مالی مدد کر رہا ہے اورنہ ہی ان کوجانی تحفظ فراہم کر رہا ہے اس کے باوجود وہ دل جمعی سے کام کر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ برس4 جولائی 2014 کو پہلا باقاعدہ کالم لکھا ،جو کسی اخبار میں شائع ہوا

اس سے پہلے بچوں کے لیے میں کافی عرصہ سے لکھ رہا تھا۔ اور کالم تقریبا تمام قابل ذکر قومی اخبارات کے لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تقریبا دو سال سے لکھ رہا تھا ۔کالم لکھنے کے مقاصد میںعزت ، شہرت حاصل کرنا ۔معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی کوشش کرنا ،حصہ ڈالنا ،اور یہ بھی کہ دل کی بھڑاس نکال سکوں ،جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ ادیب اس معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے ،اس پر جو گزرتی ہے ،جو وہ محسوس کرتا ہے بعض اسے بیان کرنے کے لیے شاعری کرتے ہیں بس میں نے کالم نویسی کا سوچا ۔اور الحمد اللہ میرے کالم پاکستان کے قومی اخبارات ،درجہ دوم کے اخبارات کے ساتھ ساتھ بعض غیر ملکی اخبارات میں بھی شائع ہوئے اور مختلف آن لائن نیوز سائٹ پر شائع ہوتے رہے ۔بعض اخبارات نے اسپیشل ایڈیشن بھی شائع کیے ۔ان 9 ماہ (270 دن)میں اب تک میں نے 120 کالم لکھے۔

ALLAH

ALLAH

اور یہ 121 واں کالم ہے ۔ اس کے لیے میں سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے یہ سب لکھنے کی تو فیق بخشی اور میںاس کالم کے ذریعے میں ان تمام اخبارات ،میگزین کے ایڈیٹرز اور ویب سائٹ کے ذمہ داران کا مشکور ہوں جنہوں نے میرے جیسے عام سے لکھنے والے کو اہمیت دی ۔اور میری تحاریر کو مناسب جگہ پر شائع کیا ۔جس کی وجہ سے آج میرے بہت سے نئے دوست بن گئے ہیں مجھے اس مختصر سے عرصے میں جو عزت ملی یہ سب ان افراد کے سبب ملی جن میں سے بہت سوں کو میں جانتا بھی نہیں ۔اس میں قلم ،سیاہی،کاغذ بنانے والے اور جن سے یہ بنتی ہیں اسی طرح کمپوٹر اور اس سے منسلک تمام آلہ جات ،نیٹ ،گوگل ،ای میل ،بجلی اور وہ سب ایڈیٹر جو بھیجی گئی ای میل کو اوپن کرتے ہیں ،اس میں سے غلطیوں کی درستگی کرتے ہیں ۔اسے بناتے سنوارتے ہیں ،ڈائزین کرتے ہیں ،اور اخبار میں لگاتے ہیں ،اس میں وہ پریس جس پر اخبارات پرنٹ ہوتے ہیں

وہ عملہ جو یہ سب کرتا ہے ،پھر ہاکر جو صبح سویرے اخبارات لے کر گلی گلی جاتے ہیں ۔اور وہ سب بھی جو کسی نا کسی طرح اس سارے عمل میں حصہ دار ہیں مثلا فیس بک پر لائک کمنٹ کرنے والے جس سبب سے مزید لکھنے کی طاقت ملتی ہے۔ ان سب کا میری طرف سے شکریہ ،دل سے ،شکر گزاری کے آج کل پانچ انداز ہیں۔دل سے شکریہ کرنا ،اس طرح جس کا شکریہ کیا جائے اسے علم ہی نہیں ہوتا ،زبان سے شکریہ کرنا اس میں لکھ کر ،یا فون و کال کر کے بھی شامل کر لیں ۔عملی طور پر شکریہ کا جہاں تک تعلق ہے اسے لفافہ بھی کہتے ہیں ،اس کے علاوہ لائیک یا پسند کے بٹن کو دبا کر یا پوسٹ لگا کر کر کے بھی شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے۔

جب ہم لوگ، دوست، عزیز، بھائی ایک دوسرے کے شکرگزار ہوتے ہیں تو آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ میں آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ تحریر اچھی لگے ، شکریہ ادا کرنے کو جی چاہے تو ای میل کریں ،لائک کریں ،شئیر کریں ۔علاوہ ازیں اوپر بتائے ہوئے طریقوں میں سے اپنی پسند کے کسی طریقہ کا انتخاب کریں ۔ میرا پیغام یہ ہے کہ قلم کار سماجی اقدار ،حب الوطنی ،قومی اتحاد کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔موجودہ عہد میں کالم نویس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے ان کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر : اختر سردار چودھری