پارلیمنٹ میں سعودی عرب کی بھر پور حمایت کا اقدام درست فیصلہ

Pakistan Senate

Pakistan Senate

تحریر : مہر بشارت صدیقی
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 12نکاتی قرارداد کی متفقہ منظوری دیدی گئی جس میں سعودی عرب کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس بات کا اظہار کیا گیا کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی کی گئی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان سعودی عرب اور اس کے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگا اور حرمین شریفین کی حفاظت میں سب سے آگے ہوگا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان یمن میں فوری جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور تنظیم او آئی سی سے رجوع کرنے کیلئے اقداما ت کرے۔ قرارداد میں جنگ کے فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ پْرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے اختلافات ختم کریں کیونکہ یمن کا بحران پورے خطے میں پھیل سکتا ہے۔

پارلیمنٹ نے یمن میں امن و استحکام کی بحالی کیلئے علاقائی اور بین الا قوامی کوششوں کی بھی حمایت کی ہے قرارداد میں اس بحران کے کا پْرامن حل تلاش کرنے کیلئے حکومت پاکستان کی ان کوششوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو وہ دوسرے مسلمان ممالک کی قیادت سے تعاون کر کے مسلم اْمہ کے اتحاد کے فروغ کیلئے کر رہی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے تاکہ وہ اس بحران کے خاتمے میں متحرک کردار ادا کر سکے،

پوری عالمی برادری اور مسلم اْمہ پر زور دیا گیا کہ وہ یمن میں قیام امن کیلئے توجہ مرکوز کرے۔ قرارداد میں علاقائی سلامتی اور استحکام کو مختلف ”دہشت گردوں اور غیرریاستی اداکاروں” کے بڑھتے ہوئے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خلیج تعاون کونسل سے دوستی اور تعاون کو بڑھائے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے کوششیں کرے۔ قرارداد میں یمن میں سلامتی اور انسانی صورت حال اور اس کے خطے میں امن اور استحکام پر مرتب ہونیوالے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ قرارداد میں اس تنازعہ میں متاثرہ لوگوں کی انسانی امداد کیلئے کئے گئے اقدامات کی حمایت کی۔

China

China

یمن میں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کے اقدامات کو سراہا اور اس سلسلے میں عوامی جمہوریہ چین کی خدمات کو سراہا گیا اور شکریہ ادا کیا گیا۔ قرارداد میں یمن کے بحران پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے فیصلے کو سراہا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یمن کی لڑائی فرقہ وارانہ نوعیت کی نہیں لیکن یہ تنازعہ فرقہ واریت میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اسکے پاکستان سمیت خطے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ یہ قرارداد ایوان میں موجود جماعتوں کے نمائندوں کے اتفاق ِرائے کے بعد تیار کی گئی۔ ارکان قومی اسمبلی و سینٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازع کے پرامن حل کی کوششیں کرنی چاہئیں، سعودی عرب کی سلامتی کو خطرات کی صورتحال میں ہر ممکن مدد کرنی چاہئے، پاک افواج سعودی عرب کے دفاع کیلئے بھجوانے پر کسی کو اعترض نہیں تاہم کسی دوسرے ملک کی خانہ جنگی میں افواج بھجوانا ملک کیلئے نقصان دہ ہو گا،

اگر یمن کی لڑائی یمن کی حدود سے باہر نکلی تو کوئی اسلامی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ محسن خان لغاری نے کہا کہ یمن کی صورتحال کا پارلیمنٹ میں زیر بحث آنا خوش آئند ہے، پی ٹی آئی کے ارکان کی واپسی پارلیمنٹ کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے، دفتر خارجہ یمن کی صورتحال سے لاتعلق ہے، ایوان میں اتفاق رائے سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان کو مسئلے میں فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف عالمی میڈیا خبریں دے رہا ہے کہ حکومت نے سعودی عرب فوج بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے، وزارت اطلاعات بھی اس بحران میں ناکام ہو گئی ہے کیونکہ وہ میڈیا میں پاکستان کے سرکاری موقف کو اجاگر نہیں کر سکی، ملک سے باہر جا کر ہماری افواج کا کسی ملٹری آپریشن میں شریک ہونا ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ پی پی پی کے ایاز سومرو نے کہا کہ پاکستان کو جنگ میں شرکت کی بجائے ثالثی اور امن کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے، اصل حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے ان کیمرہ سیشن بھی ہونا چاہئے۔ تمام اسلامی ممالک کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ وزیر دفاع نے صورتحال پر جو تقریر کی وہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، میں وزیر دفاع کے خطاب کی مذمت کرتا ہوں، ایوان کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے ہمیں دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے، مشرقی اور مغربی سرحدوں کے خطرات کی وجہ سے ہم کسی دوسرے ملک میں فوج بھجوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہمارے ملک میں ہونے والی بدامنی میں کسی دوسرے ملک نے مدد نہیں کی بلکہ بعض ممالک بدامنی بڑھانے کا سبب بنے ہیں، ہمیں ڈائیلاگ اور پرامن ذرائع استعمال کر کے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ جے یو آئی کے سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ یمن اور سعودی عرب کی صورتحال کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، پورا عالم اسلام مسائل سے دوچار ہے، سویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنا ہدف بنا کر پالیسیاں بنائیں اور سووین یونین کے بعد عالم اسلام کو اپنا دشمن قرار دیا، بعض مغربی مفکرین نے اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ قرار دیا، تہذیبوں کی جنگ کے فلسفے پر تنقید کے بعد عالم مغرب نے اس جنگ کو انسداد دہشت گردی کا نام دیا، اس وقت عالم مغرب مسلمانوں کے خلاف چوتھی عالمی جنگ شروع کر چکا، اس جنگ کا مقصد اسلامی ملکوں سمیت ترقی پذیر ممالک کی تشکیل نو کرتا ہے۔

Nehal Hashmi

Nehal Hashmi

مسلم لیگ (ن) کے نہال ہاشمی نے کہا کہ آج یوم دستور ہے، نواز شریف نے فوج بھیجنے کی نہیں بلکہ امن کی بات کی ہے۔ چین اور سعودی عرب اور ترکی ہمارے قریبی دوست ہیں، ہمیں مشکل وقت میں کام آنے والوں کے بھروسے پر پورا اترنا چاہئے، ایران کے ناراض ہونے کی بات کی گئی، ہم کب ایران میں فوج بھیج رہے ہیں اور ایران کا کونسا بارڈر یمن کے ساتھ لگتا ہے، او آئی سی کا کردار بحال ہونا چاہیے اور یمن میں فوراً سیز فائر ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے سید آصف حسنین نے کہا کہ ایوان میں ابھی تک کوئی اتفاق رائے سامنے نہیں آ سکا، پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا وگرنہ سب کا نقصان ہو گا۔ سعودی عرب کے زیرقیادت اتحادی ا فواج کے ترجمان بریگیڈئر جنرل احمد العسیری کا کہناہے کہ پاکستان نے اتحاد میں شمولیت کیلئے ابھی تک پوزیشن واضح نہیں کی، پاک فوج کی شمولیت سے جنگ کو مزید تقویت مل سکتی ہے، پاک فوج کے حوثیوں کے خلاف آپریشن میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق بریفنگ میں سعودی فوج کے ترجمان نے کہاکہ پاکستانی پارلیمنٹ میں یمن کے معاملے پر مشترکہ قرارداد کے حوالے سے پاکستانی حکومت نے ابھی تک اپنے موقف سے ہمیں آگاہ نہیں کیا۔ پاک فوج کی جنگی مہارت پر کوئی نہیں شک نہیں کیا جا سکتا۔پاک فوج کی شمولیت سے متعلق پاکستانی موقف کا انتظار ہے۔ یمن میں امداد لانے والے دو طیاروں کی صنعا تک رسائی میں مدد فراہم کی گئی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد پر حکومت نے ہمیں ابھی تک آگاہ نہیں کیا۔ سعودی حکومت کے مشیر خاص ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ المعمار نے کہا ہے کہ یمن میں اقتدار میں آنے کا طریقہ انتخابات ہیں۔ بغاوت کرکے اقتدار پر قبضے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ نہ صرف اسلامی ممالک کے ساتھ بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی مکالمے کی حمایت کرتے ہیں۔پاکستان کی پارلیمنٹ عوام کی ترجمان ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے عوام کی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ یمن میں باغی ہتھیار پھینک دیں اور حکومت کو کام کرنے دیا جائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ یمن میں اگر حکومت بحال ہو تو تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل حل کرنے چاہئیں۔

ہماری شدید خواہش ہے کہ تمام مسلم ممالک معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔ پاکستانی عوام کے لئے خصوصی طور پر کوشش ہے کہ وہ خوشحال ہوں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات کے کئی پہلو ہیں۔ اسلام کے حوالے ‘پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ بہت مضبوط ہے’۔ عشق رسول پاکستانی عوام کو سعودی عرب کی سرزمین سے جوڑے رکھتا ہے۔ سعودی عوام پاکستانی عوام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ سعودی عرب یمن میں مداخلت نہ کرتا تو بہت زیادہ خون خرابہ ہوتا۔حوثی باغی جب تک ہتھیار نہیں ڈالیں، مذاکرات نہیں کریں گے۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر : مہر بشارت صدیقی