آئین پاکستان پر مکمل عملدرآمد ہی جمہوریت

Pakistan

Pakistan

تحریر : امیر علی پٹی

آج وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان جس بحران ‘ مسائل اور مصائب سے گزررہا ہے ان سب کی وجہ اس اسلامی جمہوری مملکت کا وہ آئین ہے جو نافذالعمل ہونے کے باوجود عملداری سے محروم ہے اور جمہوریت کے دعویدار آئین و جمہوریت کے نام پر اقتدار پانے کے بعد اس آئین پر صرف اس حد تک عملدرآمد ہونے دیتے ہیں جہاں تک ان کے مفادات کی تکمیل ممکن ہوتی ہے حالانکہ پاکستان اور اس کی عوام کے تمام مسائل کا حل آئین پاکستان پر عملدرآمد میں پنہاں ہے مگر افسوس کہ قومی تقاضوں اور عوامی و عصری ضروریات کو پوری کرنے والے آئین پاکستان کو مقتدر قوتوں کے تحفظ کا ہتھیار اور عوام کیلئے خون آلود تلوار بناکر جمہوریت و آئین کی بالا دستی کے نام پر اقتدار میں آنے والے حکمرانی کے نام پرآئین سے ہی کھلواڑ کرتے اور ملک میں طبقاتی نظام رائج کرکے استحصال ‘ کرپشن اور منافرت کو فروغ دے کر مایوسیوں کو اس حد تک بڑھاتے ہیں کہ ان کی کوکھ سے جرائم اور بد امنی جنم لیتی ہے

جو سیکورٹی و انتظامی اداروں کی نا اہلی اور انصاف کی فراہمی کے ضامن اداروں کی چشم پوشی کے باعث دہشتگردی کا روپ دھار کر عوام و پاکستان دونوں ہی کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے اس لئے پاکستان کو مسائل ‘ مصائب و بحرانوں سے نکالنے اور دہشتگردی کے عفریت سے نجات دلانے کیلئے آئین پر مکمل عملدرآمد ناگزیر ہے کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جو ملک میں جمہوری انداز سے مثبت تبدیلی کا باعث بن کر قوم کیلئے ذریعہ نجات اور راہ فلاح بن سکتا ہے۔

آئین پر مکمل عملدرآمد کا آغاز انتخابی عمل کے آغاز سے قبل شروع کیا جائے تو یقینا ایک ایسی بہتر حکومت و قیادت کا انتخاب ممکن ہوسکے گا جو حقیقی معنوں میں عوام کی منتخب کردہ ‘ ان کی امنگوں کی ترجمان اور ان کے مفادات کی نگہبان ہونے کے ساتھ جمہوریت کے ثمرات بھی عام عوام تک پہنچائے گی اور وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کے ساتھ اس کی ترقی و خوشحالی کیلئے بھی دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دے گی ۔ اسلئے آئین پر مکمل عملدرآمد کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے الیکشن کمیشن کی تشکیل میں تمام آئینی تقاضوں کا پورا کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کی تشکیل اور چیف چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں کسی بھی آئینی شق سے انحراف یا نظرانداز پورے انتخابی عمل کو غیر آئینی اور شفافیت سے محروم کردینے کا باعث بن سکتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی آئینی تشکیل کے ساتھ اس کا خود مختار ‘ با اختیار اور غیر جانبدار ہونے کے ساتھ سیاسی اثرورسوخ سے بالا ہونا بھی ضروری ہے اور ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے

جب الیکشن کمیشن سرمائے ‘ فنڈز اور بجٹ کیلئے حکومت یا حکمرانوںکا محتاج نہ ہو اس مقصد کیلئے ہر بجٹ میں کم از کم 5فیصد رقم الیکشن کمیشن کیلئے مختص کی جائے اور الیکشن کمیشن کو ملک بھر کیلئے مقامی سطح پر پولنگ کا عملہ بھرتی کرنے کا اختیار دیا جائے اور پھر اس عملے کی مکمل تربیت کے بعد اس عملے سے بلدیاتی ‘ صوبائی اور قومی انتخابات میں اس طرح سے کام لیا جائے کہ فیصل آباد کا عملہ لاہور اور لاہور کا عملہ گجرانوالہ جبکہ گجرانوالہ کا عملہ سیالکوٹ میں انتخابی فرائض و ذمہ داری انجام دے اس طرح انتخابی عملہ سیاسی جماعتوں کی جانبداری ‘ اثرو رسوخ اور خوف سے بھی آزاد ہوگا اور تدریسی و طبی عملے کی طرح اسے اپنی ملازمت کا خوف بھی نہیں ہوگا اسلئے وہ پوری دیانتداری سے دھاندلی کی ہر سازش کو ناکام بناکر انتخابات کی شفافیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکے گا۔

Election Commission

Election Commission

الیکشن کمیشن کی آئینی تشکیل کے ساتھ شفاف مردم شماری اور عصری تقاضوں کے مطابق منصفانہ حلقہ بندی بھی انتخابات کی شفافیت اور عوام کی فلاح و بقا کیلئے ناگزیر ہے اسلئے فوری طور پر فوج کی نگرانی میں شفاف مردم شماری کرائی جائے اور رقبے کی بجائے آبادی کی بنیاد پر بلدیاتی ‘ صوبائی اور قومی حلقے تشکیل دیئے جائیں کیونکہ رقبے کی بنیاد پر حلقوں کی تشکیل سے آبادی کی اکثریت کا استحصال ہوتا ہے اور گنجان شہروں میں ترقیاتی عمل میں تکلیف و پریشانی کے ساتھ دیہی اور مضافاتی علاقے نمائندوں کی ہوس و کرپشن کے باعث ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں۔

انتخابات کراتے وقت انتخابات کے حوالے سے آئین میں موجود تمام شقوں بشمول 62و63پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور اختیارات کے ناجائز استعمال ‘ظلم و استحصال ‘ کرپشن ‘ کمیشن ‘ اقربا پروری ‘ قرض معاف کرانے یا قرض ہڑپ لینے کے حوالے سے مقدمات میں ملوث افراد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے جبکہ قانونی طور پر ثابت شدہ ہر قسم کے مجرم کو تا حیات نا اہل قرار دیا جائے۔

الیکٹرانک پولنگ مشین پر شکوک و شبہات اور تحفظات کا اظہار کرکے صدیوں پرانے اور روایتی و ناقص نظام انتخاب پر زور دینے کا مطلب ”روایتی ہتھکنڈوں “ کیلئے میدان کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے اسلئے انتخابات میں الیکٹرانک پولنگ نظام رائج کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی خامیوں کا خدشہ ہے تو انتخابات سے قبل انہیں مکمل طور رپر دور کیا جائے اور انتخابات اس طرح سے فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں کہ فوج پولنگ اسٹیشن کے باہر حفاظت اور امن و امان کی ذمہ داری بھی انجام دے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر ہر قسم کے دھاندلی کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کا کردار بھی ادا کرکے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کا فریضہ بھی انجام دے۔

Dictatorship

Dictatorship

راقم کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر ان تجاویز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا قیام ‘ انتخابی نظام کی اصلاح اور عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچانا انتہائی سہل و ممکن بن سکتا ہے اور ان مطالبات پر عملدرآمد سے ملک میں نہ صرف شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا بلکہ سالہا سال سے سرمائے ‘ طاقت ‘ اختیار ‘اقتدار اور موروثیت کے سہارے ملک وقوم کو لوٹنے والوں سے نجات کا عوامی خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا اور عوام کے منتخب کردہ حقیقی نمائندے بھی ایوان اقتدار تک پہنچ پائیں گے جس سے نہ صرف حقیقی جمہوریت آئے گی بلکہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک اس طرح سے پہنچیں گے کہ جمہوریت پر سے اٹھتا ہوا عوامی اعتماد پھر سے بحال ہوجائے گا اور عوامی اعتماد کے سہارے جمہوری نظام ‘ آمریت کے خدشات و خطرات سے محفوظ ہوجائے گا۔

تحریر : امیر علی پٹی
موبائل ….0300-2853441