بنت حوا خود کو پہچان؟

Wishes

Wishes

یاد کریں اس وقت کو جب غیرت کے نام پر لڑکی زندہ در گور کر دی جاتی تھی زمانہ قدیم یا دور جہالت میں عورتوں کو نہایت حقارت سے دیکھا جاتا تھا، اور اْن کے نزدیک اس کی وقعت ایک گری پڑی چیز سے ذیادہ نہ تھی یا ایک ذلیل شے جو صرف مردوں کی خواہشات کو پورا کرنے یا جسمانی لذت کو حاصل کرنے کے لئے پیدا کی گئی ہے،اور یہ صرف مردوں کی غلام بن کر زندگی گزارنے پر ہی مجبور رہے گی ، یہاں تک کہ اسکواپنا حق ملکیت سمجھ بیٹھا تھا، تو پھر ان کے حقوق پر سوچنا ہی بے معنی تھا۔

تیسری صدی میں تو عورت پر اس قدر ظلم ہوا کہ اسکے سارے حقوق دبا لئے گئے یعنی شادی بیاہ پر پابندی لگادی گئی اور چوتھی صدی میں یکسانیت کے نام پرعورت کو کسی پابندی کے بغیر سب پر حلال قراد دے کر اس پر ظلم کا پہاڑتوڑاگیا ، پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں ماں بیٹی کی تمیز ہی ختم ہو گئی اور اس وقت کا ایرانی فرمارواں یزد گرد دوم نے اپنی ہی بیٹی کو زوجیت میں رکھّا پھر قتل کردیا، اور بحرام جس نے چھٹی صدی عیسوی میں ایران پر حکومت کی تھی اس نے اپنی ہی سگی بہن کو بیوی بنا لیا تھا،ہندوستان میں تو مذہب کے نام پر (ستی کی رسم) اسکے جینے کا حق ہی ختم کردیاگیا تھا،یعنی بیوی اپنے شوہر کی موت کے بعد اسکی لاش کے ساتھ زندہ جل کر راکھ ہو جاتی تھی، پہلی بات اب یورپ میں دیکھنے کوملے گی جہاں ماں بیٹی کی تمیز بھی ختم ہو رہی ہے۔

یہ ستی کی ظالمانہ رسم شائد اب بھی ہندوستان کے کچھ علاقوں میں موجودہو،لیکن جب شمعِ رسالت روشن ہوئی یعنی محسن انسانیت سرور ددجہان فخر موجودات محمدۖ دنیا میں تشریف لائے تو اس سسکتی بلکتی اور دم توڑتی انسانیت کو انسانوں کے حقوق سمجھائے اور عورت کو وہ مقام دیا جو اس کی سوچوں سے بھی دور تھا، جب اسکو ماں کا درجہ ملا تو اسکا مقام بھی سمجھایا اور اس کے قدموں تلے جنت بتا کر ایک نا قابل انکار حقیقت کو دنیا کے سامنے رکھّا اور بہن،بیٹی اور بیوی بنا کر اس کی عزت وتکریم ، اور اسکے پاکیزہ رشتوں کی اہمیت یا اس کی قدر منزلت کو اجاگر فرمایا،مگر افسوس آج خواتین اپنے مقام کو بھول کر آزادی کے جھوٹے نعروں کے پیچھے پڑ کر اپنی عزت نیلام کر رہی ہیں اور انسان نما درندوں کی ہوس کا شکار ہو رہی ہیں، دراصل عورت لفظ عربی سے ہے۔

جسکے معنی چھپانے کے ہوتے ہیں، جب یہ نمائش پر آئی تو انجام کیا ہوگا؟ جب فطرت کے خلاف ہوگا تو بات یقینی ہے کہ نتیجہ بھی غلط نکلے گا اور انجام ذلت و رسواء شرمندگی یا ندامت،افسوس،دکھ آہ وبقا پیچھا کرے گی ،جو قانونِ قدرت سے ٹکراؤ یا انحراف کا لازمی نتیجہ ہوگا ،میکھائل گوربچّو جو سویت یونین کا صدر تھا،نے ملک ٹوٹنے اور اپنے صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد اسلامی پردے کی اہمیت پر کتاب لکّھی ہے اور اس نے عورت کی آزادی کے نام پر کئے ہوے جرم پر اعتراف کے طور پر یوں لکھّا ہے کہ سب سے پہلے لڑکی کو کام میں خلل (Disturb) ہونے کے بہانے اسکا دوپٹہ یا اوڑنی غائب کردی گئی ،اور پھر اسکو تھوڑا چست رکھنے کے نام پر اس کا ڈھیلا ڈھالا لباس اتار کر اسے ٹی شرٹ اور جینس پینٹ کی صلاح دی۔

اسے مکتبوں کی زینت کا حیلہ بنا کر یا گاہکوں کی جاذبیت کے لئے تنگ یا چست یا چھوٹے لباس (سکرٹس) پہنے پر مجبور کیا گیا،پھر آخر میں ترقی یا جدیدیت کے نام پر بے وقوف بنا کر ننگا کر کے چھوڑ دیا گیا،افسوس کس طریقے سے شرم و حیا کا جناہ نکالا گیا ہے در اصل یہ ایک جال ہے جو اس دنیا کے شہوت پرست انسان نما حیوانوں نے بچھا رکھّاہے, لیکن اس اعترافِ جرم یا اس کھیل کی حقیقت سامنے آنے کے باوجود آج کی نوجوان لڑکیاں اسی دلدل میں ترقی کے نام سے پھنس کر اپنی آبرو و عزت کا سودا کر رہی ہیں،اسلام نے نہ صرف اسکی عزت و عصمت کی حفاظت کی تعلیم دی ہے بلکہ اس کا باقاعدہ طریقہ یا نظم بھی بتایا ہے۔

Islam

Islam

مذہبِ اسلام میں خواتین کی قدر ومنزلت یا اکرام کا اندازہ صرف حج و عمرہ کے مقدس فریضہ یا اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوران حج و عمرہ صفا و مروہ پر جو سعی کی جاتی ہے،اس پر سوچیں یہ کیوں ہے؟ یہ وہ ڈور تھی جو حضرت حاجرہ علیہ السلام نے اپنے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے کو روتا بلکتا دیکھ کر پانی کی تلاش میں لگائی تھی،جس کی پکار اور اسکی آہ بقا اور اسمائیل علیہ السلام کا پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑنا جس کا نتیجہ تھا رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور پانی کاچشمہ ابل پڑا تھا جو آج بھی زمزم کے نام سے جاری ہے۔

دنیا بھرکے مسلمان سیراب ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے ، حضرت حاجرہ علیہ السلام کی صفا و مروا پر ڈو ر بارگاہ الٰہی میں اس قدرمقبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے شریعتِ اسلامی کے اہم فریضہ میں اسکو شامل کر دیا ،اور مردوں کیلئے اس طرح کی ڈور کے بغیر حج یا عمرہ کو ادھورا یا نا مکمل ٹھرایا مگر عورتوں پر مزید اکرام و احسان کرتے ہوئے اسے اس ڈور سے مستنیٰ رکھّا ہے،پھر بھی اگر عورت اسلام کے اس عظیم احسان کی قدر نہ کرے اور اللہ کے احکام نبیۖ کی تعلیمات کوبھول کر یا نظر انداز کر کے عیش و طرب کی محفلیں سجانے یا اسکی زینت (ماڈلز ،مس ورلڈیا مس یونیورس یا ریمپسٹس اور ایکٹرس وغیرہ )بننے یا لوگوں کی تسکین کا سامان مہیا کرنے میں لگ جائے تو اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ؟اسلئے خواتین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مقام کو جانے اور ربّ کائنات کی دی ہوئی ان لازوال نعمتوں کی قدر کرے اور اس دنیا کی چند روزہ رنگینی کو دیکھ کر اپنی اْخروی زندگی کو برباد نہ کرے۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر:ایم اے تبسم (لاہور)
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102