کورونا بحران: مسلم میتوں کو یورپ سے آبائی ممالک بھیجنا محال

Grave

Grave

وہاں (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا کے ہر خطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے دنیا کے ہر خطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔

مبارکا بودا نے یقیناً مراکش میں اپنے آبائی شہر میں ہی دفن ہونے کی خواہش کی ہوگی۔ لیکن وہاں تو کورونا کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ انہیں آخر کار ہالینڈ کے شمال مغربی علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے کے مسلمانوں کے ایک نئے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

’’ یہ ایک اچھی سیکنڈ چوائس تھی۔‘‘ گزشتہ ہفتے ‘ریاض الجنۃ‘ نامی قبرستان میں اپنی دادی کے جسد خاکی کو تابوت سمیت قبر میں اتارتے ہوئے یہ کہنا تھا مبارکا کے پوتے حسن بودا کا۔

بودا کی تدفین کا عمل جیسے ہی انجام کو پہنچا ویسے ہی ایک اور سوگوار خاندان اس قبرستان میں پہنچا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک اور گروپ آ گیا۔ ان میں سے بہت سے سوگواروں نے حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے چہرے پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہن رکھے تھے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت ان سب کے ہاتھوں میں لکڑی کے بیلچے تھے جس سے وہ تابوت پر مٹی ڈال رہے تھے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے دنیا کے ہر خطے میں لگی سفری پابندیوں سے صرف مسافروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ غیر ممالک میں وفات پانے والے افراد کی میت کو ان کے آبائی وطن پہنچانے کا عمل بھی نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ میں وفات پانے والے مسلمانوں کی موت کی وجہ کورونا وائرس نہ بھی رہی ہو، ان کی میت کو ان کے وطن پہنچانا اب روز بروز مشکل تر ہوتا جائے گا۔ خاص طور پر 60 اور 70 کے عشرے میں یورپ آنے والے تارکین وطن کی پہلی نسل اس مسئلے سے سب سے زیادہ دوچار ہو گی۔ یہ وہ تاریکن وطن ہیں جو روزگار کی تلاش میں یورپ آئے تھے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اُسی سر زمین میں دفنایا جائے جہاں انہوں نے آنکھ کھولی تھی۔

ہالینڈ میں مبارکا بودا کا جنازہ پڑھانے والے امام حامد بلقاسمی کہتے ہیں، ”ان مسائل کی وجہ کورونا کا بحران ہے۔ بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کہ مرنے کے بعد انہیں ہالینڈ میں دفنایا جائے گا۔‘‘ تاہم انہوں نے بتایا کہ ہالینڈ کے مسلم اماموں کی ایسوسی ایشن نے متفقہ طور پر اس بارے میں مسلم برادری کو آگاہی فراہم کرنا شروع کر دی ہے کہ مسلمانوں کا کسی دوسرے ملک میں دفنایا جانا جائز ہے۔

شیفول موریٹوریم، جو ہالینڈ سے لاشوں کو ان کے وطن پہنچانے کے انتظامات میں مہارت رکھتا ہے، یہاں بھی کورونا وائرس کے شدید اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ عام طور پر یہ ادارہ ہر سال تقریباً دو ہزار لاشوں کی وطن واپسی میں مدد کرتا ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ہانس ہائیکوپ نے بتایا کہ ان میں سے 5 سو سے 6 سو تک مراکشی باشندوں کی میتیں ہوتی ہے۔

اب پروازوں کی بحالی کی منتظر میتوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھا جارہا ہے۔ ٹھنڈے اسٹوریج میں یہ لاشیں ہفتوں، یا مہینوں تک رکھی جا سکتی ہیں۔ ہائیکوپ نے بتایا کہ زیادہ تر مسافر پروازیں فی الحال بند ہیں، لاشوں کے کچھ تابوت ترکی جیسے ممالک کے لیے کارگو طیاروں پر بھیجے جا سکتے ہیں، لیکن مراکش نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ فیملیز تو واپس مردہ خانے آکر اپنے رشتہ داروں یا گھر والوں کی میت واپس لے جاتی ہیں کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ایمسٹرڈیم کے مضافات میں قائم ائیرپورٹ پر ان لاشوں کو کہیں لمبے عرصے تک انتظار نہ کرنا پڑے۔

مسلمانوں کی یورپی ممالک میں تدفین کا معاملہ ایک اور مذہبی مسسئلے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ معاملہ دو مختلف عقائد کا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق مردے کو دفنانے کے بعد اُسے ہمیشہ کے لیے اس کی قبر میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور قبر قائم رہتی ہے جبکہ یورپی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ایک تو قبر کے لیے جگہ حاصل کرنا بہت مہنگا ہوتا ہے اور ان کی قیمتوں میں مزید مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ قبر کی ملکیت کے طور پر برقرار رکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ مثال کے طور پر فرانس اور ہالینڈ دونوں میں قبروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور فرانس میں ایک قبر کا کانٹریکٹ 15 سال تک چلتا ہے اُس کے بعد یا تو کانٹریکٹ کی نئی قیمت کے ساتھ تجدید کی جاتی ہے یا پھر قبر کو خالی کرنا پڑتا ہے۔

یہ دونوں صورتیں ہی مسلمانوں کے لیے مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی اعتبار سے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ ‘فرنچ کونسل فار دا مسلم فیتھ‘ کے صدر محمد موسوی کہتے ہیں، ”یہ مسلم عقیدے کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ مسلم عقیدے اور روایات کے تحت مردے کو دفنانے کے بعد قبر ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے۔ یورپ میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک فرانس ہے۔ یہاں 5 ملین سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اموات میں واضح اضافے کے سبب مسلم برادری تدفین کے مسائل کی وجہ سے غیر معمولی دباؤ کا شکار ہے۔ فرانس میں اب تک مسلمانوں خاص طور سے مراکش اور الجزائر کے مسلم گھرانے اپنی میتوں کو اپنے آبائی ممالک بھیجا کرتے تھے اور قبرستانوں میں مسلمانوں کے لیے بہت محدود جگہ مختص تھی۔ اب جب کہ لاشوں کی منتقلی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے مسلمانوں کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔‘‘

تدفین کے بارے میں ڈچ آئمہ ایسوسی ایشن نے یہ مشورہ دیا ہے کہ معمول کے مطابق گرچہ قبر ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے لیکن اگریہ ممکن نہ ہو تو میت کے لواحقین کو چاہیے کہ طویل ترین مدت کے لیے کسی قبر کا بندوبست کریں۔

بہت سے ڈچ قبرستانوں میں چھوٹے چھوٹے اسلامی حصے موجود ہیں۔ نیدرلینڈ میں تاہم صرف دو مسلمان قبرستان ہیں جومردوں کو ابدی آرام کی اجازت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبارکا بودا کے گھر والے لائڈن سے 230 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے انہیں دفنانے کے لیے زوڈلرن آئے۔ یہاں یہ قبرستان اسی مہینے کھولا گیا ہے۔

مبارکا بودا 70 کی دہائی کے اوائل میں ہالینڈ آئی تھیں۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے انہیں دو دو تین تین ملازمتیں کرنا پڑتی تھی۔ انہیں خون کی کمی کے سبب بیماریوں کا سامنا تھا۔ رمضان کے مہینے میں وہ روزے رکھ رہی تھیں کہ 83 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس قبرستان میں قبروں کا رُخ مکے کی طرف ہے۔ وہیں اپنی دادی کو ہمیشہ کے لیے سلانے والے حسن بودا کا کہنا تھا، ”ہم سب دادی کی تدفین کے لیے کس قدر پریشان تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اب سکوں مل گیا۔ یہ قبرستان ہالینڈ میں مراکشی اور دیگر اسلامی برادریوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔‘‘