کورونا سے لڑائی میں اینٹی ملیریا دوائیں کتنی مددگار؟

Medicines

Medicines

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں بعض ڈاکٹروں نے ملیریا کی دواؤں سے کورونا کے مریضوں کے علاج کے دعوے کیے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دواؤں پر ابھی تحقیق چل رہی اور ان کا بےجا اور غلط استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔

کورونا وائرس کی نئی مہلک قسم کا علاج ڈھونڈنے کے لیے دنیا بھر میں کم از کم اڑسٹھ مختلف پراجیکٹس پر کام چل رہا ہے۔ ویکسین پر تحقیق کا یہ کام امریکا، اسرائیل، چین، جرمنی، ہانگ کانگ، فرانس، آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں میں جاری ہے۔

لیکن جرمن فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے مطابق اگر اس سال کووڈ ۱۹ کی ویکسین کا علاج مل بھی جائے تب بھی اسے عام شہریوں تک پہنچانے میں وقت لگے گا۔

ایسے میں اس وبا کے نشانے پر موجود ملکوں کے پاس دو ہی راستے ہیں: وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لمبے عرصے کے لیے لاک ڈاؤن کریں یا پھر پہلے سے موجود کچھ دواؤں کو کورونا کے مریضوں پر آزمائیں۔

ان دواؤں میں اینٹی وائرل ادویات شامل ہیں جو کورونا وائرس کی پچھلی قسموں ”مارس‘‘ اور ”سارس‘‘ کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی تھیں۔

لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں جن دواؤں کا زیادہ چرچا ہوا ہے وہ ڈاکٹروں کی جانی مانی اینٹی ملیرا دوائیں ہیں، جن میں ”ریسوچن‘‘نمایاں ہے۔

پاکستان کے دیہاتوں میں مچھروں کے کانٹنے اور بخار سے نمٹنے کے لیے ریسوچن کی گولیاں عام استعمال میں رہی ہیں۔ یہ دوائی انیس سو تیس کی دہائی میں جرمنی میں بائر لیبارٹری نے تیار کی تھی۔ لیکن آج دنیا میں یہ دوا بنانے والی واحد فیکٹری پاکستان میں ہے۔

ریسوچن کی گولیوں کی خاص بات ”کلوروکوئن فاسفیٹ‘‘ ہے، جو بعض ماہرین کے مطابق کورونا انفیکشن سے لڑنے میں مؤثر ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ماہ جب چین کی حکومت کورونا کے بحران سے نبردآزما تھی تب پاکستان نے بیجنگ حکومت کی مدد کے لیے اسے فوری طور پر ریسوچن کی تین لاکھ گولیاں پہنچائیں۔

اس کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں میں فارمیسی اسٹورز سے ریسوچن اور دیگر اینٹی ملیریا دوائیں اس تیزی سے فروخت ہوئیں کہ بخار کے مریضوں کو یہ مل نہیں پا رہی تھیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ابھی یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ پہلے سے موجود یہ دوائیں کورونا کے خلاف کتنی مؤثر ہیں اور مریضوں کے لیے ان کے ممکنہ نقصانات کیا ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کچھ روز پہلے ان دواؤں کو کورونا کے علاج کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن امریکا میں محکمہ صحت کے ماہرین نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور شہریوں کو تلقین کی کہ جب تک ماہرین کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتے وہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ان ادویات کے بےجا اور غلط استعمال سے گریز کریں۔

بائر کا شمار دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ کورونا کے بحران کے بعد اس جرمن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اب تیزی سے یورپ میں اس دوا کا پلانٹ لگانے جا رہی ہے تاکہ حکومتوں کو مزید ٹرائل اور ٹیسٹنگ کے لیے کلوروکوئن مہیا کیا جا سکے۔ جرمنی کی وزارت صحت نے کمپنی کو پہلے ہی اس دوا کی بہت بڑی کھیپ کا آرڈر دے دیا ہے۔