کورونا ویکسین: کویت میں تارکین وطن کو امتیازی رویے کا سامنا

Kuwait

Kuwait

کویت (اصل میڈیا ڈیسک) تیل سے مالا مال ریاست کویت، جہاں غیر ملکی اس ملک کی معیشت کا پہیہ چلا رہے ہیں اور جو ملک کی آبادی کا ستر فیصد ہیں، انہیں کورونا وائرس کی ویکیسن لگوانے میں امتیازی روہے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کے برعکس کویت میں کورونا وائرس کی ویکیسن لگوانے کے عمل میں ملکی شہریوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے آئے تارکین وطن، جو کویتی شہریوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں، ان کے بچوں کا خیال کرتے ہیں، ان کی گاڑیاں چلاتے ہیں، انہیں اب تک ویکیسن کی پہلی خوراک بھی نہیں مل سکی۔

ستائس سالہ ایک کویتی ڈاکٹر کا کہنا ہے،’’مجھے ویکسینیشن سینٹر میں صرف کویتی شہری نظر آتے ہیں۔ کویت میں قریب سب ہی معاملات میں اپنے شہریوں کو ترجیح دینے کی پالیسی رائج ہے۔‘‘ گزشتہ دسمبر کویت کی ریاست کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ویکیسن سب سے پہلے طبی عملے کے افراد، بزرگوں اور ان افراد کو دی جائے گی، جو بیمار ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ واضح ہونے لگا کہ دراصل ویکیسن کویتی شہریوں کو دی جا رہی ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں۔

کویت میں تارکین وطن کی ملک میں رہائش ان کی نوکریوں کے ساتھ منسلک ہے۔ ماضی میں بھی کویت کو تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک تیس سالہ بھارتی خاتون نے کہا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کویت میں گزار ی ہے لیکن وہ اب بھی اپنے 62 سالہ والد کو کورونا وائرس کی ویکسین نہیں لگوا پائیں، ’’میں جتنے کویتی شہریوں کو جانتی ہوں، وہ سب ویکسین لگوا چکے ہیں۔‘‘

یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ماسک وائرل انفیکشن کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں يا نہيں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ناک پر چڑھانے سے قبل ماسک ميں پہلے سے بھی جراثیم پائے جاتے ہيں۔ ماسک کا ايک اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی ناک اور منہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں یہ ماسک دوسرے افراد کو آپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کویت غیرملکیوں کی نسبت اپنے چھ گنا زیادہ شہریوں کو ویکیسن لگا چکا ہے۔ ملک کے زیادہ تر کیفز اور سپر مارکیٹوں میں غیر ملکی کام کرتے ہیں جنہیں اب تک ویکیسن نہیں لگی۔ اس کے باوجود کویت ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے معیشیت کو کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محقق روہن اڈوانی کہتے ہیں ،’’کویت میں تارکین وطن کو تمام مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانا عام بات ہے۔‘‘ کورونا وائرس کی وبا کے اوائل میں کئی ٹی وی پروگرامز میں تارکین وطن کو ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

کویت میں پارلیمان ہونے کے باوجود فیصلے ملک کے طاقت ور امیر افرد کرتے ہیں اور کویت کے شہری، جنہیں پیدائش سے موت تک ریاست کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے، اکثر تارکین وطن کی حمایتی پالیسیوں کے حق میں نہیں ہوتے۔