خواتین پر وبا کی دوہری مار پڑی ہے، خواتین رہنما

Jacinda Ardern

Jacinda Ardern

نیوزی لینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع پر تین با اثر خاتون رہنماؤں نے خواتین پر کورونا وبا کے اثرات پر توجہ مبذول کراتے ہوئے ان کے لیے مساوات اور تحفظ کا مطالبہ کیا۔

دنیا کی تین بااثر خاتون رہنماؤں نے پیر آٹھ مارچ کے روز اس بات پر روشنی ڈالی کہ کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کو کس طرح سے متاثر کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈرن، امریکا کی نائب صدر کمالہ ہیرس اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لائن نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر یورپی پارلیمان سے خطاب کیا۔

ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت جب خواتین برابری کے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں وبا کے دور میں خواتین کو در پیش معاشی اور سیاسی چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

محترمہ آرڈرن کا کہنا تھا، ” کووڈ انیس نے ہمارے نظام صحت، ہماری معیشتوں اور ہمارے ذریعہ معاش کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سے عدم مساوات کو بھی بڑھاوا ملا ہے جو خواتین اور لڑکیوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے۔ خواتین کورونا وبا کے بحران سے لڑنے میں آگے آگے رہی ہیں۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین تو، ”ڈاکٹروں، نرسوں، سائنسدانوں، مواصلات کاروں، نگہداشت کرنی والی اور ان فرنٹ لائن ورکروں اور ایسے ضروری کارکنان میں شامل رہی ہیں جو اس وائرس کی تباہ کاریوں اور چیلنجوں کا ہر روز سامنا کرتی رہی ہیں۔”

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران خواتین جہاں دیگر بہت سے مسائل سے متاثر ہوئی ہیں وہیں انہیں بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا، ” اس (گھریلو تشدد) کی خبریں دنیا کے کونے کونے سے وبا کے سائے کے طور پر آتی رہی ہیں۔”

امریکا کی نائب صدر کمالہ ہیرس نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ قرنطینہ کے اقدامات نے خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

انہوں نے واشنگٹن میں پہلے سے ریکارڈ شدہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ” کووڈ 19 نے صحت، معاشی تحفظ اور خواتین کی جسمانی سلامتی کو ہر مقام پر خطرے سے دو چار کر دیا۔ عالمی سطح پر ہیلتھ ورکر کے طور پر خواتین کا حصہ 70 فیصد ہے جس کے تحت وہ کام میں سب سے آگے رہ کر اپنی زندگیوں کو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ مول لیتی ہیں۔”

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لائن نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ یورپی کمپنیوں کو اپنی تنخواہوں میں شفافیت برتنے کی ضرورت ہے تاکہ صنف کی بنیاد پر اجرت کے معاملے میں جو فرق ہے اس کو ختم کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا یہ، ”یہ بالکل سادہ اصولوں پر مبنی ہے: برابر کام پر یکساں اجرت ہونی چاہیے اور یکساں اجرت کے لیے آپ کو شفافیت برتنے کی ضرورت ہے۔ اور خواتین کو بھی اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ ان کا آجر ان کے ساتھ برابری کا سلوک کر رہا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کے پاس اس سے لڑنے کی طاقت ہونی چاہیے تاکہ وہ سب حاصل کر سکیں جس کی وہ مستحق ہیں۔”

ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو چودہ فیصد اجرت کم دی جاتی ہے اور صرف 67 فیصد خواتین ہی ملازمت میں جبکہ مردوں کی شرح 78 فیصد ہے۔

یورپی کمیشن کی سربراہ کا کہنا تھا، ”یہ قطعی نا قابل قبول ہے۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کر کے خواتین کے لیے بھی برابری کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ہمیں یکساں حقوق کے لیے جد و جہد کرنی ہے۔”