کورونا وائرس: فرانس میں پھر سے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ

Emmanuel Macron

Emmanuel Macron

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کے سد باب کے لیے فرانس کے متعدد علاقوں میں پہلے سے ہی بندشیں عائد تھیں جنہیں اب ملکی سطح پر نافذ کر دیا گیا ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے ملک میں کورونا وائرس کے انفیکشن میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر 31 مارچ بدھ کے روز پورے ملک میں تیسری بار لاک ڈاؤن کے نفاذ کا حکم دیا۔ فرانس میں اس وقت جس تیزی سے نئے کووڈ 19 کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ بہت ہی جلد اسپتالوں میں جگہ باقی نہیں بچے گی۔

میکروں نے ٹیلی ویژن پر اس سے متعلق اپنے خطاب میں کہا کہ برطانوی قسم کا یہ نیا وائرس، ”وبا کے اندر ایک وبا کی تخلیق کر رہا تھا”، جو کہیں، ”زیادہ متعددی اور اور مہلک تھا۔”

انہوں نے فرانس میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اس وبا کی وجہ سے، ”بہت ہی جلد تقریباً ایک لاکھ اہل خانہ سوگوار ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے اب اقدام نہیں کیے تو پھر یہ قابو سے باہر ہو جائیگا۔ ہم ایک ریس میں داخل ہو رہے ہیں۔”

یکم اپریل جمعرات کو فرانس کے وزیر اعظم زاں کاسٹکس ان نئے اقدامات کے حوالے سے پارلیمان میں بحث کرنے والے ہیں۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس اور ملک کے بعض شمالی علاقے جو وبا سے زیادہ متاثر تھے وہاں شام سات بجے سے صبح کے چھ بچے تک جوکرفیو عائد تھا اس میں توسیع کر دی گئی ہے اور اب اس دوران پورے ملک میں کرفیو نافذ رہے گا۔ غیر ضروری اشیاء فروخت کرنے والے تمام اسٹور اور دکانیں بھی بند رہیں گی۔

اس کے علاوہ نئے اقدامات کے تحت گھریلو سطح پر دو مختلف مقامات کے درمیان اگر بہت ضروری نہ ہو تو سفر پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئندہ تین ہفتوں کے لیے تمام اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں۔

صدر میکروں کا کہنا تھا، ”وائرس کی رفتار کم کرنے کا یہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ فرانس اس صورت حال میں بھی اپنے اسکول دیگر پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں زیاہ وقت تک کھولنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔

ابتداء میں صدر میکروں نے ملک کی گرتی معیشت کی وجہ سے جتنا ممکن ہوسکا کم بندشیں عائد کیں اور صرف زیادہ متاثرہ علاقوں میں ہی کرفیو نافذ کیا تاکہ بد حال معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا یہ فیصلہ کرنے سے قبل، ”ہم سے جتنا ہوسکتا تھا ہم نے کیا اور بالآخر ہمیں یہ اقدامات کرنے پڑے۔” اسی وبا کی وجہ سے فرانس میں گزشتہ برس اکتوبر سے ہی تمام ریستوراں، بار، جم، سنیما ہال اور میوزیم بند پڑے ہیں۔

فرانس میں منگل تک پانچ ہزار سے بھی زیادہ مریض انٹینسیو کیئر یونٹ (آئی سی یو) میں بھرتی تھے۔ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران بیک وقت آئی سی یو کے مریضوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ فروری کے مہینے سے یومیہ انفیکشن کی شرح دوگنی، یعنی تقریبا ًچالیس ہزار ہے۔

گزشتہ روز ہی ملک میں ڈاکٹروں کی ایک قومی تنظیم نے اپنے ایک مکتوب میں صدر سے، ”جہاں کہیں بھی ضروری ہو حقیقی لاک ڈاؤن کے نفاذ کی سفارش کی تھی۔”

یہ خط ایک مقامی میگزین میں شائع ہوا تھا۔ اس تنظیم کے صدر پیٹرک بوئیٹ نے لکھا، ”ایسا لگتا ہے کہ جیسے وبا پر ہمارا کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔ وائرس جیت رہا ہے۔”

پیرس میں یورپیئن اسپتال جارج پامپیڈیو کے پروفیسر فلپ جوئن نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بڑے صحت کے بحران سے بچنے کے لیے شاید اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ملک میں دوبارہ سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جائے۔