کورونا کو نظر انداز اور منافرت کو ترجیح

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری

کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا نے جب پورے ملک میں اپنے پاؤں پسار لئے ، تب حکومت ہند کی نیند ٹوٹی،لیکن اس وقت کافی دیر ہو چکی تھی۔جس کے باعث بغیر کسی تیاری اور لائحہ عمل کے ملک میں 14 اپریل تک کے لئے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی آمد بھارت میں اچانک ہوئی ۔ چین میں 31 دسمبر کو ہی اس مہلک وبا کی سچائی کا علم چین کے ہی ڈاکٹر لی ویلیانگ کے ذریعہ پوری دنیا کو ہو گیا تھا ، کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد ہی ڈاکٹر لی نے اس وبا سے دنیا کو خبردار کیا تھا ۔ یہ خود اس وبا سے لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ڈاکٹر لی کی موت کے بعد اس وبائی مرض کی خبریں دنیا بھر سے آنے لگی تھیں ۔ دنیا کے بہت سارے ممالک نے احتیاطی تدابیر کرنا شروع کر دئے ۔ چین کے شہر ووہان ،جہاں سے یہ وبا پھیلی اس شہر سے صرف ایک سو تیس کیلو میٹر دور بسے ایک چھوٹے سے ملک تائیوان نے تو ابتدأ میں ہی اس کورونا وائرس کو ملک میں داخلے کے خلاف اس قدر سخت حکمت عملی اوراحتیاطی تدابیر اپنائی کہ اس ملک سے کورونا وائرس کا ایک بھی معاملہ سامنے نہیںآیا۔ ہانگ کانگ نے بھی ایسی ہی شاندار مثال پیش کی۔ کئی دوسرے ممالک اس وبا سے لڑنے کے لئے فیس ماسک، سرجیکل ماسک ، وینٹی لیٹر وغیرہ جیسی دیگر ضروری طبی اشیأ مہیأ کرانے منہمک ہو گئے۔

ہمارے ملک بھارت کی حکومت پورے ڈھائی ماہ تک مختلف ممالک میں بڑھتی اس وبا سے بے خبر رہی یا یوں کہیں کہ اسے نظر انداز کرتی رہی۔ جنوری ماہ میں ہمارے وزیر اعظم مودی نے کہا ‘بھارت کو اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں’۔ فروری میں انھوں نے فرمایا ‘ بھارت اس وبا سے متاثر نہیں ہوگا ‘ ، یہ کہہ کر وہ ٹرمپ کے تاریخ ساز استقبال میں مشغول ہو گئے۔ 17 مارچ کو شکایت کی کہ راہل گاندھی بلا وجہ لوگوں کے اندر خوف پیدا کر رہے ہیں اور پھر اچانک ایک شب نمودار ہوتے ہیں اور22 مارچ کو عوامی کرفیو نافذ کئے جانے کے ساتھ اسی روز شام میںکورونا وائرس کو ملک سے بھگانے کے لئے ملک بھر میں تالی اور تھالی پیٹنے کے لئے تاکید کی جاتی ہے۔

نتیجہ میں ملک کے مختلف علاقوں میں لوگ گھروں سے نکل نکل کر مودی جی کے حکم کی تعمیل میں تالی اور تھالی پیٹنے لگے۔ تالی اور تھالی اس طرح رقص و موسیقی کے ساتھ پیٹا گیا کہ ایسا لگا جیسے کورونا وائرس کی آمد کا جشن منایا جا رہا ہے۔ امیتابھ بچن جیسے لوگ بھی اس جشن میں اپنے پریوار کے ساتھ تالی پیٹتے نظر آئے۔ کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا کے پھیلتے سلسلہ کو روکنے کے لئے وزیر اعظم کے نافذ کردہ لاک ڈاؤن پر ملک کے ذمّہ داروں کی بے حسی کا یہ عالم رہا کہ آسام میں بی جے پی کے ایم ایل اے عوامی کرفیو کے دوران ہی مال کا افتتاح کرتے نظر آئے ۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گرا کر اپنی حکومت سازی کا جشن منایا جا رہا تھا ۔ بھوپال میں سندھیا کی سیاسی فتح کا جشن بھی دیکنے کو ملا۔ کہیں گؤ موتر پارٹی ہو رہی تھی ۔ لکھنؤ میںکنیکا کپور کے ساتھ جشن منایا جا رہا تھا (جو اب پانچویں اسٹیج مین بھی مثبت پائی جا رہی ہیں )،پارلیامنٹ میں بیٹھنے والی خاتون ممبر کورونا وائرس سے بچنے کے لئے لوگوں کو مشورہ دے رہی تھیں کہ بریڈ پر مکھن کی طرح گائے کا گوبر لگا کر کھانے سے اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔ مرکزی وزیر مملکت صحت اشونی چوبے نے دور کی کوڑی لائی کہ دھوپ میں کھڑے رہنے سے اس وبا سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

اگر دھوپ میں کھڑے رہنے ، تالی اور تھالی پیٹنے ، گؤ موترپینے اور گائے کا گوبر کھانے سے ہی کورونا وائرس سے بچا جا سکتا تھا تو پھر یہ اچانک 31 مارچ تک کے لاک ڈاؤن ختم ہونے کا انتظار کئے بغیر 24 مارچ کی شب میں بنا کسی تیاری کئے اور سوچھے سمجھے پورے ملک میں مذید ١کیس دنوں تک یعنی اگلے 14 اپریل تک کے لئے لاک ڈاؤن نافذ کئے جانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی ۔ اتنے لمبے عرصے کے لئے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان وزیر اعظم نے کرنے کو تو کر دیا لیکن لمحے بھر کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس لمبی مدّت کے لاک ڈاؤن سے پورے ملک میں بسنے والے غریبوں اور مزدوروں کی پریشانیوں میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا ۔ اس ناعاقبت اندیشی کا ہی نتیجہ رہاکہ گجرات، آسام ، ہریانہ، دہلی وغیرہ سے ہزاروں ہزار کی تعداد میں بوڑھے، بچّے، جوان غریب مزدور پیدل ہی سینکڑوں میل کی مسافت بھوکے پیاسے کرنے پر مجبور ہوئے ۔ ان لوگوں کا کہیں کوئی پرسان حال نہیں ملا ۔ ان لوگوں پر رحم و ترس کھاتے ہوئے ان کی مدد کیا کی جاتی ، کہ ان غریبوں اور مزدوروںپر راستے میں ملنے والی پولیس والوں نے ظلم و زیادتی کی ایسی انتہا کی انھیں دیکھ کر اچھے اچھوں کی آنکھیں چھلک گئیں۔

حکومت کو ان غریبوں و مزدوروں کی بے بسی اور مجبوری کی پرواہ نہیں رہی ۔ اس بے پناہی کے سفر میں کتنے مرد و خواتین کے ہم سفر کا ہمیشہ کے لئے ساتھ چھوٹ گیا ۔ کتنی ماؤں کی گود سونی ہو گئی۔ اطلاع کے مطابق پیدل سفر اور بھوک پیاس کی شدّت سے 42 افراد کی موت ہو چکی ہے اور 60 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔کئی دن گزر جانے کے بعد بھی ان کی بے پناہی کا سفر ختم نہیں ہوا ہے ۔ ان لوگوں کو جہاں تہاں کیمپوں میں قیدیوں کی طرح رکھا گیا ہے اور بات کی جارہی ہے سماجی دوری بنائے رکھنے کی ۔ حکومت کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کے باعث ایسے غریب اور بے سہارا لوگ کورونا وائرس سے تو کم مر ینگے، بھوک ، پیاس کی شدت سے زیادہ مرنے پر ضرور مجبور ہونگے ۔ ایسے بہت سارے مسائل سامنے آ رہے ہیں ۔ کاش کہ وزیر اعظم مودی جی اتنے اہم فیصلے سے قبل کچھ غور و فکر کر لیتے، اپنے رفقأ سے کچھ مشور کر لئے ہوتے ۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کو ہمارے ملک کی حکومت پورے ڈھائی ماہ تک پوری طرح نظر انداز کرتی رہی۔ انتہا تو یہ ہوئی ، جیسا کہ راہل گاندھی نے حکومت ہند سے جواب طلب کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ یہ حکومت 19 مارچ تک ملک میں کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لئے فیس ماسک، سرجیکل ماسک ، وینٹی لیٹر وغیرہ جیسی طبی سہولیات کے لئے جمع کرنے کی بجائے ،ان ضروری اشیأ کو بیرون ممالک میں ایکسپورٹ کیوںکرتی رہی۔ جبکہ بیرون ممالک کے ذرائع ابلاغ اس بات کی بار بار تنبیہ کر رہے تھے کہ سوپر مانے جانے والے ملک امریکہ ، برطانیہ وغیرہ جہاں ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں ۔ وہاں لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے تو بھارت جیسے گھنی آبادی اور نسبتاََ غربت میں زیادہ جینے والے ملک کو ابھی سے زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر کرنا چاہئے۔ لیکن یہاں کی حکومت کو تو ہندو، مسلمان کے درمیان منافرت پھیلانے، مندر مسجد تنازعہ کھڑا کرنے ، عدم رواداری ، تشدد، سیاسی جوڑ توڑ کر دوسرے کی حکومت گرانے اور اپنی حکومت بنانے ، مجسموں کی تعمیرپر کروڑوں ، اربوں خرچ کرنے ، شہروں کا نام تبدیل کرنے میں ہی مشغول رہتی ہے ۔ صحت اور تعلیم ان کے ایجندے میں ایسا لگتا ہے ہی نہیں ۔بے جا اور لا حاصل مشغولیات پر تنقید کرنے ، حکومت سے سوال کرنے کی بجائے یہاں کی گودی میڈیا واہ واہی کرنا ہی صحافتی وفاداری تصّور کرتی ہے۔یہی وجہ رہی کہ کورونا وائرس کے مختلف ممالک میں وبائی شکل اختیار کر لینے کے باوجود یہاں کی حکومت اس سے بے پرواہ رہی ۔ حالانکہ اس وبا کی ملک میں پاؤں پسارنے کی خبریں بعض اخبارات میںآنے لگی تھیں ۔

ہندی روزنامہ ‘ہندوستان’ (پٹنہ، ایڈیشن) کے 28 جنوری کے شمارہ کے صفحہ اوّل پر ریاست بہار میں کورونا وائرس کے تین مریضوں کے ملنے کی خبر بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اسی طرح کئی دوسرے اخبارات میں بھی مسلسل بڑھتے کورونا وائرس کے خطروں سے آگاہ کیا جارہا تھا ۔ لیکن مرکزی حکومت دلی کاانتخاب جیتنے، شہریت قانون سے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے، دلی میں مسلمانوں کے قتل و غارت گری میں، ٹرمپ کی آو بھگت کی تیاریوں میں ، مدھیہ پردیش کی حکومت گرانے میں منہمک رہی ۔ ملک کے وزیر اعظم کی اس وبائی مرض سے متعلق لاتعلقی اوربے فکری کا یہ عالم رہا کہ پی ایم او نے کورونا وائرس سے بین الاقوامی فکر مندی کے مد نظر 24 جنوری کواحتیاطی تدابیر کے لئے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی ضرورت محسوس کی تھی ۔ جس میں وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، وزیر صحت نے شامل ہو نا ضروری نہیں سمجھا اور پرنسپل سکریٹری کی صدارت میں کی گئی اس میٹنگ میںخانہ پری کر دی گئی۔ اس دن بھی اگر اس میٹنگ کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو ملک میں ایسے بھیانک حالات شائد نہ ہوتے کہ ملک بھر کے اسپتالوں میں علاج کے لئے بنیادی طبی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں ۔

جب سر سے پانی اُوپر گزرنے لگا تو ان بنیادی طبی ضروریات کی چیزوں کے لئے مختلف ریاستوں میں آرڈر دئے جا رہے ہیں ۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق بھارت میں اس وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 1834 ہے اور مرنے والے 41 کے آس پاس ہیں ۔یہ تعداد دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا سے ملک کے حالات بہت ہی نازک ہیں ۔ اس نازک وقت میں ہر شہری کی کچھ نہ کچھ ذمّہ داریاں اور فرائض ہیں ۔ جنھیں سمجھنا اور ان پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت مختلف سماجی اور دینی ادارے اور میڈیا کا بہت اہم رول ہے ۔ مزدوروں کی نقل مکانی ہر حال میں روکنا ضروری ہے۔ جو لوگ اچانک بے روزگار ہو گئے ، ان کے جینے کے لئے بنیادی ضرورتوں کا سامان کرنا نیز ان کی طبی مدد کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ یہ وبا زیادہ نہیں پھیلے۔

گزشتہ چند دنوں سے نظام الدین کی مسجد جہاں تبلیغی جماعت کے لوگ اچانک لاک ڈاون کے کئے گئے فیصلہ سے اپنے اپنے علاقوں میں نہیں جا سکے ۔ ان پھنسے ہوئے لوگوں کو فرقہ پرست لوگ اور خاص طور پر میڈیا، مذہبی رنگ دینے میں پوری طاقت لگائے ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس سے لڑنے اور اسے پوری طرح شکست دینے کے لئے متحدہ کوشش ضروری ہے ۔ لیکن گودی میڈیا اس کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے پھر ہندو مسلم خلیج کو بڑھانے میں منہمک ہے ۔ بار بار یہ بیان سامنے آ رہا ہے کہ مسجد کے ذمّہ داروں نے اچانک لاک ڈاون کے سبب مسجد میں پھنسے لوگوں کو ان کے دور دراز علاقوں کی رہائش گاہوں تک بھیجنے کے لئے سترہ عدد بس کا انتظام کیا تھا اور 25 مارچ کو ہی مقامی ایس ایچ او کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے ان بسوں کے لئے کرفیو پاس کی گزارش کی تھی ۔ لیکن انتظامیہ اسی طرح سویا رہا ، جیسے مختلف مقامات سے باہر نکل کر آنند بہار وغیرہ میں لوگ پہنچ گئے اور انتظامیہ سوئی رہی ۔ ویشنو دیوی اور دیگر کئی مندروں اور گرو دواروںمیں بھی بہت سارے لوگوں کے پھنسے ہونے کی بھی خبریںآئی ہیں ۔ تو کیا ان کی مدد کرنے اور انھیں ان کے شہروں اور گاؤں پہنچانے اور ان کے کھانے ، پینے کا انتظام کئے جانے کی بجائے فرقہ پرستی اور منافرت کی زبان میں انھیں کورونا وائرس پھیلانے والا کہا جائے گا۔ ہمارے یوگی جی لاک ڈاؤن میں ہی 25 مارچ کو اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایودھیا پہنچ کر رام جی کو رام مندر میں براجمان کرتے ہیں ۔ نظام الدین کی مسجد میں جہاں تک بیرون ممالک سے آنے والوں کا سوال ہے تو ان کی آمد اور قیام کی اطلاع وزارت خارجہ کو رہتی ہے ۔ملک میں لاک ڈاون نافذ ہونے کے بعد بھی چارٹرڈ پلین سے بھر بھر کر لوگ لائے گئے ، کیوں نہیں تبلیغی جماعت کے لوگوں کو اسی طرح واپس کیا گیا ۔ دراصل مرکزی حکومت کی لاپرواہی اور کورونا وائرس کو نظر انداز کئے جانے سے دن بدن بڑھتے اور بگڑتے حالات سے خواہ وہ مرکزی حکومت ہو یا پھر دلی حکومت اپنی بہت ہی واضح ناکامیوں سے بوکھلائی گئی ہے اورایک بار پھر وہ ہندو مسلما ن کر ، لوگوں کے ذہن کو اپنی ناکامیوںسے بھٹکانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جس میں گودی میڈیا پوری مدد کر رہا ہے ۔

کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کو نظر انداز کئے جانے کا یہ عالم ہے کہ کورونا وائرس سے عالمی الرٹ جاری ہونے کے باوجود کیبنیٹ سکریٹری(مرکزی) راجیو گوبا نے پندرہ لاکھ لوگوںکی بیرون ممالک سے ملک کے اندر داخل ہونے کی اطلاع دی ہے۔ اب ، جب کہ یہ اندازہ ہوا کہ بیرون ممالک سے آنے والوں نے ہی ملک کے اندر کورونا وائرس پھیلایا ہے ، تب ان آنے والے لوگوں کو تلاش کیا جا رہا ہے ۔ کاش کہ ملک کے اندر ہندو مسلمان کئے جانے اور پورے ملک میں منافرت کے جرثومے پھیلانے کے بجائے ، کورونا وائرس کے جرثومے کو روکنے کی، وقت رہتے جنگی پیمانہ پر توجہ دی جاتی ،تو اس وقت جس طرح لوگوں کوہر پل موت کا خوف ستا رہا ہے ، ایسا نہ ہوتا ۔ کورونا وائرس ملک کے لوگوں کو تو اپنی غذا بنا ہی رہا ہے ،یہ بہت بے دردی سے ملک کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کر رہا ہے ۔ جرمنی کے وزیر مالیات ملک کی بہت تیزی سے گرتی معیشت سے پریشان ہو کر خود کشی کر لی ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا ، نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کے بر سر اقتدار افراد بہت تیزی سے بگڑتے حالات کو بہت سنجیدگی سے سمجھیں اور مثبت سوچ اور فکر کے ساتھ لائحہ عمل تیار کریں۔ …

Dr Syed Ahmad Quadri

Dr Syed Ahmad Quadri

تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری