ملک کا بڑا حصہ پھر ڈوب گیا ، ڈیموں کی موجودگی میں ایسا نہ ہوتا : ماہرین

Dams

Dams

اسلام آباد (جیوڈیسک) ملکی تاریخ میں 1950 سے لےکر اب تک 18 مرتبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا بری طرح شکار ہونا پڑا ہے۔ 2010 ء کے بعد تو سیلاب ہر سال ہی ملک کے ایک تہائی علاقے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔

جب کہ حکومتوں کی نااہلی اور پانی کے ذخائرتعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے دریاؤں کا پانی رحمت کے بجائے زحمت بن چکا ہے۔ سکردو سے بحیرہ عرب کے ساحل تک دریائے سندھ پاکستان کے نقشے پر ریڑھ کی ہڈی کی طرح موجود ہے اور صرف دریائے سندھ پر چھوٹے بڑے درجنوں ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔

حیران کن امر یہ ہے کہ ورلڈ بینک 1967 ء میں ان مقامات کی نشاندہی کرچکا ہے جہاں یہ ڈیم بنائے جا سکتے ہیں۔ دریائے سندھ پر سکردو ٗ بونچی ٗ چلاس ٗ سوکھی ٗکیناری ٗ کٹ کئی اور کالا باغ کے مقام پر ڈیم بآسانی بن سکتے ہیں۔

اس کے علاقے چشمہ ،ٗ تونسہ ، گدو ، ٗسکھر اور کوٹری بیراجوں کی تعمیر نو کر لی جائے تو دریائے سندھ کا دو کروڑ 22 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے اور سکردو سے کوٹری تک کا علاقہ بھی سیلاب سے محفوظ ہو جائے گے۔ دریائے چناب کے چنیوٹ کے مقام پر بڑا ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

دریائے جہلم میں شامل ہونے والے دریائے پونچھ پر راج دہانی ٗ اور کانچی میں چھوٹے ڈیم بن سکتے ہیں۔ اسی طرح دریائے راوی پر شاہدرہ دریائے کنہار اور چترال کے درمیان میر خانی کے مقا م پر ڈیم بنا کر علاقے کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہے۔

دریائے سوات پر منڈا اور دریائے پنچ کھوڑا پر کندہار کے مقام پر ڈیم بنائے جاسکتے ہیں ، جس سے نوشہرہ ، چارسدہ اور چکدرہ کے علاقے محفوظ بنائے جاسکتے ہیں۔ دریائے کنہار پر ناران پر ڈیم بن سکتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر سے سیالکوٹ اور نارووال میں داخل ہونے والے نالہ ڈیک اور ایک پر بھی ڈیم بنا کر علاقے کو سیلاب سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر ان میں سے آدھے ڈیم بھی تعمیر کر لئے جائیں تو توانائی بحران ہو گا اور نہ سیلاب کی تباہ کاریاں۔