یومِ اقلیت؟

Christian

Christian

ملک میں غیر مسلم خصوصاً مسیحی ١١،١گست کو یوم ِ اقلیت کے طور پر منا رہی ہیں ،اول تو میں آج تک اقلیت کے معنی نہیں سمجھا کہ اقلیت کسے کہا جاتا اور یہ غیرمسلم مسیحی،ہندو،بہائی،اور سکھ وغیرہ جو بھی انہوں نے از خود پر یہ اقلیت کا لفظ چسپاں کر لیا ہے ھالانکہ وہ پاکستانی ہیں ،ہر گز مہاجرین نہیں اور نہ ہی وہ کوئی مفتوح ہیں بلکہ یہ اسی دھرتی کے حقیقی باشندے ہیں،مگر…..یہ یوم اقلیت بھی اک لالی پاپ ہے جو اقلیتیں خصوصاًمسیحی چوستے اور خوش ہوتے ہیں ھالانکہ اِس چوسنے میں سے کچھ بھی تو نکل نہیں رہا ،چہ جائیکہ مسلم اپنی تعداد کو کروڑوں میں بتاے ہیں مگر آج تک اقلیتوں کی درست مردم شماری نہیں ہوئی ورنہ تو یہ بھی …..اقلیتی خواتین بانجھ نہیں کہ مسیحی جرائد جن میں قدیم تر نقیب ہے۔

جس کی پیشانی پر ٨٥ وان سال لکھا ہوتا ہے دوسرے نمبر پر شاداب ہے جس کی پیشانی پر ٤٥ واں سال مرقوم ہے اور یہ ہم سخن بھی اب انٹرنیشنل جریدے کے دسویں برس ہیں داخل ہو چکا ہے ان کے علاوہ بھی بے شمار جرائد ہیں ،ایک اوز نامہ آفتاب جو کوئٹہ جیسے دور افتادہ مقام سے اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے نقیب تو مذہبی پرچہ ہے کیونکہ گرجہ گھر کم ہو گئے ہیں ،شاداب شعر وشاعری اور خطوط سے مزیین ہوتا ہے ہم سخن جو بڑی تعداد میں پاکستان ، یورپ اور امریکہ میں بھی پڑھا جاتا ہے اور خوب داد وصول کرتا ہے گذشتہ ربعہ صدی سے عمانوایل ظفر ایڈ ووکیٹ سابق ایم این اے چیف ایڈیٹرہمسُخن بڑی محنت سے اقلیتی مسائل پر ہر ہر پہلو سے قانونی طور پر بھی نشان دہی کرتا ہے۔

مگر ایوانوں میں اس کی شنوائی نہیں،کیوں؟کس کے پاس وقت ہے کہ اقلیتی مسائل پر محض غور ہی کر ے، سوہن مسیح کوئٹہ سے اقلیتی خصوصاً مسیحیوں کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک مدت گزر گئی ،گزشتہ برس جون ٢٠١٣ کے ہم سخن میں کھلا خط ملکِ پاکستان کی عدلیہ کے تمام چیف جسٹس صاحبان چیف الیکشن کمشنر اورچئیر مین سینٹ کے نام تحریر تھا خط کی تحریر کے ہر ہر لفظ سے مسیحیوں کی بے بسی اور مایوسی و محرومی کے آنسو ٹپک رہے جو آج ١٤ ماہ گزرنے کے بعد بھی نامراد کسی ردی کی ٹوکری میں منو مٹی تھلے سسک رہا۔

سوہن نے خط میں یہ بھی لکھا کہ ہماری آخری امید عدلیہ ہے سوہن بھائی آپکو یاد نہیں کہ جے سالک نے ٢٠٠٢ میں ١٧ ،ویں ترمیم جس سے اقلیتوں سے ووٹ کا حق چھین کر انہیں متناسب نمائندگی کی سولی پر لٹکا دیا کے خلاف عدالت عظمےٰ میں داد رسی کے لئے پٹیشن دائر کی جس کی روئیداد کئی مرتبہ انہی جرائد میں آچکی ہے مگر انصاف …..! ٨٨ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلےٰ بنے ان دنو انصاف کا بہت چرچا تھا اور میاں صاحب ہر مجلس، جلسے اور عوامی سطح پر کہتے انصاف ہر دہلیز تک پہنچائیں گے ….تب میں نے افسانچہ لکھا انصاف میری دہلیز پر ،یہ ٩٣ء قومی ڈائجسٹ لاہورمیں شائع ہوأ،ہزاروں صدیوں کے بعد انصاف میری دہلیز تک پہنچ چکا مگر وہ ایک لاشہ اور اسے کندھے پر اٹھائے خوش تھا کہ اب انصاف میری دہلیز تک…. مسیحی جرائد و اخبار تو ایک طرف کسی بڑے اخبار میں اول تو مسیحی تحریر کو جگہ ہی نہیں ملتی اگر کہیں غلطی شائع بھی ہو جائے تو پزیرائی نہیں ملتی کیوں؟

یہ مشاہدہ اور تجربہ سے واضح ہے ،١٦ نومبر ٢٠٠٧ کو کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار میں شیعہ ،سنی کی، آپس میں لڑائی جس میں ہر دو فریقین کی طرف سے بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے اورمالی نقصان بھی ہوأاِس کے بعد پارہ چنار کا زمینی راستہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا پارہ چنار کی شیعہ آبادی کے لئے بڑی مشکل ہوئی کہ پشاور جانے کالئے ،افغانستان کے راستہ میدان، پکتیا اور ننگر ہار اور جلال آباد سے ہوتے ہوئے طور خم سے پشاور پہنچتے …..چار برس تک ملک کے اخبارات میں ،لوگ لکھتے رہے مگر ….میں اگست ٢٠١١ کو بڑی مشکل سے طالبان کی نظروںسے خود کو چھپا کر وہاں پہنچاچند لوگوں سے ملا حالات و واقعات کا مطالع کیا اور کُرم کی تاریخ پر اک نظر کے حوالے سے مضمون لکھا۔یوں تو مضامین لکھے جاتے رہے ہیں۔

Islam

Islam

مگر اس تحریر کو ایڈیٹر روز نامہ ازکار اسلام آباد نے جس طرح فیچر بنا کر سپیشل ایڈیشن کہ ٤ ،اکتوبر ٢٠١١ کو شائع کیا، تو ایوانوں میں ہلچل پھر خبر ملی کہ ٨،اکتوبر کو اسلام آباد میں جرگہ شروع ہوأ اور پھر ٣٠ ،اکتوبر کو دونوں فریقین میں صلح ہوئی اور پارہ چنار کا زمینی راستہ چار سال بعد کھل گیا اور اگلے دن اُن لوگو میں جن کا مالی نقصان ہوأ تھا،نصف رقم تقسیم گئی قارئین یہ لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ اسلام آباد کے چھوٹے روز نامہ ازکار میں شائع شدہ مضمون نے ایوانوں میںہلچل مچا دیاور اپنے منطقی انجام تک پہنچا اور یہاں نصف اور ربعہ صدی تک لکھنے اور صفحات سیاہ کرنے کے کہ با وجود کچھ حاصل نہیں ہوأ اور اتراتے ہیں کہ ہمارے مختلف جرائد ہیں۔

جو مسائل کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں مگر حکومتی ایوانوں میں ہمیشہ خاموشی ایسا کیوں؟ اس کیوں کی تلاش از بس ضروی، دوسری طرف فروری ٢٠١٤ ،کو چند سکھ دوستوں نے پارلی منٹ کے احاطے میں داخل ہو کر وہ کچھ حاصل کر لیا جو مسیحی٦٦ برسوں میں حاصل نہیں کر سکے ……مقام فکر ہے ایسا کیوں ؟ اُن کا پارلیمنٹ میں کبھی کوئی نمائندہ نہیں پہنچا،اور یہا ں ٧٣ ء سے مسلسل ٤ نمائندے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں مین چلے آرہے ہیں ،بلکہ غیر منقسم پنجاب اسمبلی میں چار مسیحی MLA تھے اور آج بھی مگر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے حتیٰ کہ آج تک درست مردم شماری نہیں کرا سکے۔

معاف کیجیئے گا گدھا معصوم اور غریب جانور جو اپنے مالک کا وفادار ہی نہیں اپنی کھرلی کو بھی جانتا ہے اور مسیح نے بھی اس پر شاہانہ سواری کی ….ماضی میں یہی زریہ سفر تھا کیا لاکھوں کروڑوں گدھے مل کر کسی درندے کا مقابلہ کرسکتے ہیں . شیر تو جنگل بادشاہ ہے یہ ایک بھیڑئے کی چیخ سے بھاگ جاتے ہیں ، دو برس ہوئے گڑھی شاہو میں قدیم گوشئہ امن…بلڈوز کردیا احتجاج ہوأ اخبارات میں تصویریں چھپی اور پھررات گئی بات گئی اب کسی کو یا د نہیں،،زمین مافیا کی نظروں میں ٨ کچہری روڈ پر چرچ اور سکول کی قیمتی اراضی کھٹک رہی ہے۔

حکومت اسے واپس کرنے کے ہر گز تیار نہیںاورنا ہی ان نامزدیوں میں ایسی جرات ہے کہ وہ انہیں واپس لینے کے لئے میدان میں آئیں،حکمرانوں کو چاہے ماضی کے یا حال کے اِ ن کی نفسیات کا بخوبی ادراک ہے یہ بھی علم ہے کہ یہ لوگ بین لاقوامی سطح پاکستان کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہیں کر سکتے…… اور یہ حکومت کی تکنیکی دھاندلی ہے نہ تو انہیں ووٹ کا حق ہی دیا جا رہا جو حکمرانوں کے لئے کوئی مشکل پیدا کرسکیں اور نہ ہی ان کی مردم شماری درست کرائی جا تی ہے اور نہ عدالتوں سے انصاف مل سکا۔.

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی