دانش ریاض کے ساتھ انٹرویو

Danish Reyaz

Danish Reyaz

مسلمانوں میں معاشی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، دانش ریاض
معیشت کے ڈائریکٹر دانش ریاض اقلیتوں میں معاشی و تجارتی بیداری پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ اپنے ماہنامہ اور آن لائن نیوز پورٹل کے ذریعہ تو وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہی ہیں، سالانہ تجارتی اجلاس کے ذریعہ بھی اپنی مہم کو جلا بخشتے ہیں۔ آئندہ 21 نومبر کو ملک کی راجدھانی دہلی میں وہ چھٹا کل ہند اقلیتی تجارتی اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ اس موقع پر تنویر احمد نے ان سے تفصیلی گفتگو کی۔ پیش ہیں اس کے اہم اقتباسات۔

تنویر احمد : ماہنامہ معیشت کی جانب سے چھٹا کل ہند اقلیتی تجارتی اجلاس 21 نومبر کو کرایا جا رہا ہے، اس اجلاس کا مرکزی موضوع اور اصل مقصد کیا ہے۔
دانش ریاض : ماہنامہ معیشت کے ذریعہ کرائے جا رہے تجارتی اجلاس کا بنیادی مقصد عوام (خصوصا اقلیتوں) میں معاشی و اقتصادی بیداری پیدا کرنا ہے۔ ہم گذشتہ پانچ برسوں سے جہاں میگزین نکال رہے ہیں وہیں روزانہ کی معاشی خبروں کے ذریعہ عوام کو باخبر بھی رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح اسکول، کالج اور مختلف اداروں میں جا کر معاشی بیداری پروگرام بھی کرتے ہیں۔ موجودہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا مرکزی موضوع ‘تجارت کے نئے مواقع: ہنر و صنعتی فروغ میں اقلیتوں کا کردار’ ہے۔

تنویر احمد : آپ نے اب سے پہلے پانچ تجارتی اجلاس منعقد کیے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان اجلاس کا فائدہ اقلیتی عوام کو مل پایا ہے؟
دانش ریاض : پہلا پروگرام ہم نے کولکاتا میں منعقد کیا تھاجس میں مختلف کارپوریٹ گھرانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے بعد دوسرا پروگرام ممبئی میں منعقد ہوا جہاں تاجر و صنعت کاروں کی بڑی تعدادشریک ہوئی۔ الحمد للہ اس کے بعد سے ایک سلسلہ شروع ہوگیا اورکارپوریٹ گھرانوں کے ذمہ داران، تاجر و صنعت کاروں کے ساتھ طلبا و نوجوان اس سے استفادہ کرنے لگے۔ آج جب میں دیکھتا ہوں کہ پانچ برسوں میں ہم نے کیا کچھ کر لیا ہے، تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ایک چنگاری تو روشن ہوئی ہے۔ ان اجلاس سے سینکڑوں طلبا و طالبات استفادہ کر رہے ہیں جبکہ تاجروں کی بڑی تعداد آپس میں متعارف ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کوششوں سے عوام نے بھر پور استفادہ کیا ہے۔

تنویر احمد : کیا اس طرح کے پروگرام سے ریاستی یا مرکزی حکومت پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ کیا حکومت کا رجحان اقلیتی طبقات میں تجارت کے فروغ کی جانب بڑھتا ہے؟
دانش ریاض : جب ملک کا بجٹ تیار ہوتا ہے تو اس میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع دئیے جانے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنی تجاویز سے حکومت کو باخبر کرتے ہیں حکومتیں انہیں بھی زیر غور لاتی ہیں۔ لیکن المیہ یہ رہا ہے کہ کبھی ہمارے لوگوں نے بجٹ سے پہلے اقلیتوں کے بارے میں کوئی ٹھوس تجویز نہیں دی جس پر حکومت غور کر سکے۔ بجٹ کے بعد لوگ شور و غوغا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں ملا اور وہ نہیں ملا، یا ہمارا حق غصب کر لیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے بجٹ پر خصوصی کام کیا اور بجٹ کی تیاری سے لے کر پیش کئے جانے تک جن مراحل سے بھی پورا معاملہ گزرتا ہے اس سے لوگوں کو روشناس کرایا جبکہ اصحاب حل و عقد کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بجٹ سے پہلے ہی اقلیتوں کے بجٹ کا خاکہ پیش کریں تاکہ حکومتیں اس پر غور کر سکیں۔ الحمد للہ اس ضمن میں کار آمد کوششیں ہوئی ہیں اور حکومتوں نے بھی توجہ دی ہے۔

Pakistan

Pakistan

تنویر احمد : سالانہ ہونے والے آپ کے اقلیتی تجارتی اجلاس میں چنندہ اشخاص کو اعزاز سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔ ان اشخاص کا انتخاب آپ کس طرح کرتے ہیں؟
دانش ریاض : پورے ملک میں صنعت کاروں اور تاجروں کی ایسی تعداد بستی ہے جو بہت سارے اچھے کا م کر رہے ہیں۔ لیکن افسوسناک ہے کہ ان کی خدمات کو کسی نے جائز طور پر سراہا نہیں ہے۔ لہٰذا پہلی مرتبہ جب ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے عجیب نظروں سے دیکھا کہ آخر یہ لوگ خدمات کا اعتراف کس طرح کرتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایک پورا سسٹم کام کرتا ہے اور جانچ پرکھ کر لوگوں کو ایوارڈ کا مستحق بناتا ہے تو پھر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہماری خدمات کو سراہا۔ دراصل ہم ایک نومینیشن فارم تقسیم کرتے ہیں اور تمام لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ کے تعلقات میں جو لوگ قابل ہیں آپ انہیں منتخب کریں۔ اس کے بعد ہم پھر منتخب شدہ کی پروفائل جانچتے ہیں کہ واقعی انہوں نے کام کیا ہے یا نہیں اور اس کے بعد پھر فائنل فیصلہ کرتے ہیں۔ الحمد للہ اس کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی حوصلہ ملا ہے جو لوگ بہتر کام کر رہے ہیں۔

تنویر احمد : ملک گیر پیمانے پر کسی بھی طرح کی تقریب منعقد کرنا ‘ٹیڑھی کھیر’ ثابت ہوتی ہے۔ آپ کا اب تک کا تجربہ کیسا رہا ہے اور خصوصی طور پر انتظامی امور کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں؟
دانش ریاض : یقینا ملک گیر پیمانے پر پروگرام کا انعقاد ‘ٹیڑھی کھیر’ سے کم نہیں اور معاش و معیشت جیسے خشک موضوع پر خصوصاً اقلیتوں کے حوالے سے تو اور بھی دشوارگذار ہے۔ چونکہ ہمارے یہاں بیداری نہیں ہے لہٰذا لوگ ان چیزوں کی اہمیت بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ رب العزت کی مدد شامل حال رہتی ہے اور الحمد للہ ہم کامیابی کے ساتھ اپنا پروگرام کرتے ہیں۔

تنویر احمد : کچھ باتیں قارئین کو اپنے ماہنامہ ‘معیشت’ کے بارے میں بتائیں۔ مثلاً آپ کس طرح کا مواد رسالہ میں پیش کرتے ہیں اور کس طرح کے مسائل سے آپ کو دو چار ہونا پڑتا ہے۔
دانش ریاض : جیسا کہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں میں معاشی بیداری نہیں ہے لہٰذا وہ ان کوششوں کو لائق اعتنا سمجھتے ہیں۔ اس لئے رسالہ بھی پریشانیوں سے دوچار رہتا ہے۔ ہم نے’معیشت’ کو انٹر نیشنل اسٹینڈرڈ پر شائع کیا ہے۔ اس کے مواد بھی تجارتی و اقتصادی امور کو احاطہ کئے رہتے ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں بیشتر لکھنے والے انگریزی داں ہیں لہٰذا زیادہ تر مواد انگلش سے اردواور دوسری زبانوں میں منتقل ہوتا ہے۔

Minorities

Minorities

تنویر احمد : ‘معیشت’ کی ویب سائٹ میں نے دیکھی ہے جو ماشاء اللہ بہت خوبصورت ہے اور کئی زبانوں میں ہے۔ لیکن اس میں بمبئی کی نمائندگی دوسرے مقامات کی بہ نسبت کافی زیادہ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
دانش ریاض : سب سے اہم بات یہ کہ ادارہ ممبئی میں ہے جو ملک کی معاشی راجدھانی بھی ہے۔ لہٰذا بیشتر رپورٹیں معاشی راجدھانی کی رہتی ہیں۔ ویسے ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ ملک بھر کی خبریں اور رپورٹیں شائع کریں بلکہ ہم تو برصغیر کے ساتھ پورے ایشیا کو محیط ہیں اور خلیجی ممالک کی بھی خبریں شائع کرتے ہیں۔