بیٹیاں تو رحمت ہوتیں ہیں

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

بیٹیاں گھروں کی رونق ہونے کے ساتھ ساتھ خاندان کی عزت بھی ہوتی ہیں۔ ان کی معصومیت اور پاکیزگی والدین کافخر وغرور ہوتی ہے۔ لیکن جب بیٹیوں کی معصومیت کو زمانے کی ہوا لگ جائے اور پاکیزگی کو دور جدید کی دیمک چاٹ جائے تو دلوں کو سکون بخشنے والی یہ ہی بیٹیاں زندگی کاروگ بن جاتی ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں طلاق کا تناسب جس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس میں بیٹیوں سے زیادہ قصور والدین کا ہوتا ہے جو ایک مشرقی اور اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے بیٹیوں کی پرورش مغربی طرز پر کرتے ہیں۔ جس سے لڑکیوں میں خود غرضی بے حسی اور بے باکی پیدا ہوتی ہے۔ والدین بیٹیوں کو کھلی آزادی اور زندگی کی آسائشیں دے کر ان میں خود نمائی اور اپنی ذات کا غرور تو پیدا کر دیتے ہیں لیکن خوش اخلاقی, انکساری ،اخلاقی اقدار، شعور، ایثار اور درگزر جیسی خوبیاں ان میں پیداکرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

دور جدید میں لڑکیوں کی شادی شدہ زندگی میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ گھریلوامور سے ناواقفی ہے۔ مائیں بیٹیوں کو ان کی تعلیم کے دوران گھر کے کاموں سے دور رکھتی ہیں کہ ابھی صرف پڑھائی پر توجہ دوجب وقت آئے گا کام بھی سیکھ جائو گی۔حالانکہ ان کو جس کام سے روکنا چاہیے اس سے نہیں روکتیں ٹیلی ویژن پر بے ہودہ پروگرام دیکھتے ہوئے یا موبائل فون پرفضول باتیں کرنے میں چاہے پوری رات گزر جائے مائیں نہیں روکتیں۔ ہم اس قدر مغربی تہذیب میں لت پت ہو چکے ہیں کہ ہمیں یاد ہی نہیں کہ اسلام میں غیر محرم لڑکی اور لڑکے کی دوستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آج کل ہماری بچیاں دن رات ٹیلی فون پر مرد دوستوں سے باتیں کرتی ہیں یہاں تک کئی کئی دن دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر بھی رہتی ہیں۔ کیا جی ہم اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرنے کے لیے جا رہی ہیں۔ والدین روکنے کی بجائے خود شاپنگ کرنے بھیجتے ہیں۔

Mobile

Mobile

افسوس کہ آج ہم اسلامی اقدار کو بھول کر رسوا ہو چکے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کوپڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سکھائیں تاکہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ بیٹیوں کے لیے اچھی تعلیم وتربیت بہت اہم ہے تاکہ ان کو کوئی بھی اپنا غلام نہ سمجھے۔ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ قابل فخر ہو سکتی ہیں اگر ان کی اچھی تربیت کی جائے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کواچھی عادات سیکھانی چاہیے کوئی بھی کام بنا کیے اور تربیت کے بغیر نہیں آتا کھانا پکاناایک مشکل کام ہے جو ہماری بیٹیاں ہی کرتی ہیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں کہ ایک دن میں سیکھ لیا جائے اس کے لیے تجربے مشاہدے اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہمارے گھروں میں ڈھیروں قیمتی سامان موجود ہے لیکن فضول کیونکہ ہر چیز کو اس کی موزوں جگہ پر رکھنے اور گھر کو سجانے کی صلاحیت لڑکی اپنی ماں کے اطوار اور سلیقے سے سیکھتی ہے۔

یاد رکھیں گھر سلیقے اورذہانت سے چلائے جاتے ہیں۔ تعلیم کی بے جان ڈگریوںسے نہیں جس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد بھی سیرت دھندلی رہے اور روح پر سیاہی چھائی رہے تو ایسی تعلیم توبے ثمر ہی رہتی ہے۔ آج کے دور سے پرانے زمانے کا وہ دور اچھا تھا جب لڑکیوں کو دنیاوی تعلیم تو واجبی دلوائی جاتی تھی لیکن ان کی شخصیت اور کردار کی تربیت بھی کی جاتی تھی۔ انہیں مشرقی اقدار اور وایات کی پاپندی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مائیں بچیوں کو بچپن ہی سے گھر داری سیکھاتی تھیں دوسروں کی عزت واحترام کرنا اور رشتوں کو محبت واعتماد کی ڈور سے باندھنے کے گر بتائے جاتے تھے۔ اس وقت کی لڑکیا ںاپنے میکے کی عزت وآبرو برقرار رکھنے اور اپنے گھر کو آباد رکھنے کے لیے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا بڑی خوشی سے کرتیں تھیں۔

لیکن گھروں کو ٹوٹنے نہیں دیتی تھیں ۔آج کے والدین اگر اپنی بیٹیوں کو ان کی شادی کے بعد ان کے گھروں میں خوش وخرم دیکھنا اور معاشرے میں طلاق جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ عمل ہے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کریں بیٹیوں کی تربیت اس ڈھب سے کریں کہ ان کی شخصیت متوازن رہے۔ انھیں اعلیٰ تعلیم ضرور دلوائیں کیونکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن بے جا آزادی کوبے راہ روی ہر گزنہ بننے دیں۔ بچیوں کو ہمیشہ یہ احساس دلائیں کہ ان کا اصل گھر ان کا سسرال ہے جہاں جاکر انھیں وہاں کے ماحول میں ڈھلنا ہو گا۔ ان کے طور طریقوں اور رسم ورواج کو نبھانا ہو گا اپنی عادتوں اور روز شب کے معمولات کو ان کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا کہ اسی میں بیٹیوں کی ازدواجی زندگی کی کامیابی ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیازعلی شاکر
0315-417447