دن بدلنے کی دعائیں

Dua

Dua

تحریر : روہیل اکبر

دنیا بھر میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر اس بار کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث یہ دن صرف بیانات کی حد تک ہی منایا گیااس دن کی مناسبت سے پنجاب حکومت نے مزدوروں اور کسانوں کی ترقی کی لیے خاطر خواہ ااقدامات ضرور کیے ہیں ورنہ پہلے تو جلسے ہوتے تھے جلوس نکالے جاتے تھے اور جگہ جگہ محنت کشوں کے حق میں تقریریں کی جاتی تھیں اور اس دن کی اہمیت سے لاعلم ہمارے محنت کش مزدور بھائی نسل درنسل غلامی کا طوق پہنے شب وروز اپنا خون پسینہ بہانے والے صدیوں سے تعمیر و ترقی کے نام پر ایندھن بننے والے محنت کش آنکھوں میں آس کے دیے جلاے جب آسماں کی طرف دیکھتے تھے تو اپنے دن بدلنے کی دعائیں ضرور کرتے ہونگے انہیں کیا معلوم کہ انکے نام پر سیاست کرنے والوں نے تو انکے حصے کی زکواۃ اور خیرات بھی خود ہضم کرلی پاکستان جو محنت کشوں،مزدوروں،کسانوں اور غریب لوگوں کی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا اس پر بڑے بڑے جاگیر دار،سرمایہ دار اور مفاد پرست قابض ہوگئے انہوں نے ہمیں میٹھی گولیاں دیکر شاہراہ ترقی پر جانے والی بس کا ڈرائیور ہی تبدیل کردیا جس نے گاڑی کے اگلے گیئر توڑ کر پچھلا گیئر لگا دیا اور ہم ابھی تک انکے سحر سے نہیں نکلے آج بھی نواز شریف ہمارا لیڈر ہے جس نے غریب لوگوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا چکر دیکر مادر ملت کے خلاف جلوس نکلوادیا اور بعد میں انکے وارثان نے دنیا بھر میں اپنی جائیدادیں اور پیسے جمع کیے وہ پیسے پاکستان کے غریب عوام کے تھے جن کے نام پر سیاست کی جاتی ہے یہ حکمران ہماری اس گاڑی کے ڈرائیور ہوتے ہیں جنہوں نے منزل تک پہنچانا ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ خود تو اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں مگر ہمیں نہیں پہنچنے دیتے اس ڈرائیونگ سیٹ کی اہمیت کا اندازہ ہالی ووڈ میں بننے والی فلم دی ٹرین سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہاہم نازی جنگ ہار چْکے ہیں۔

فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ہم کو دوبارا فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیئے میرا حکم ہے کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اْٹھا لائے اْن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی، وین گوہ کی تصویریں، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا ٹریں روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔

انجینئر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ہو گئے انجینئر آئے خرابی کو ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا انجینئر آئے بوائلر مرمت ہوا اور ٹرین پھر چل پڑی، ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ پریشیر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے انجینئر آئے پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئر اسے ٹھیک کرتے رہے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی تک فرانس کی حدعبور نہ کرسکی اور پھر ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ ” موسیو بہت شکریہ اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی” ڈرائیور نے مکے ہوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ہو گیا جب وہ پیرس پہنچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لئے کھڑی تھی ڈرائیور پر گْل پاشی کی گئی پھر اس کے ہاتھ میں مائیک دے دیا گیا، ڈرائیور بولا ” جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر “دی ٹرین” فلم بنائی اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی “دی ٹرین” کی سٹوری سے کم نہیں، کبھی انجن فیل ہو جاتا ہے کبھی پہیہ جام، کبھی پسٹن تو کبھی بوائلر پھٹ جاتا ہے۔

قائد اعظم کو ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹانے والوں نے اس سیٹ پر قبضہ جما لیا تب سے اب تک بحران ہی بحران ہے اور ہم اپنی منزل تک پہنچ نہیں پارہے ہم سب کو ملکر اس ڈرائیور کو ڈھونڈنا ہے اور اسکے لئے پشتون بلوچی سندھی پنجابی کا رنگ اتار کر پاکستانی بننا ہوگا پاکستانی بن جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجاے اللہ تعالی اس ارض پاک کو ہمیشہ آباد و خوشحال رکھے(آمین)۔رہی بات عمران خان کی اسے مخالفین نے پاگل خان، ہٹلر خان،یوٹرن خان، زکوٰۃ خان،کینسر خان،سونامی خان، یہودی خان، طالبان خان، اسٹیبلشمنٹ خان، یہ خان اور وہ خان جیسے نام دے رکھے ہیں کون ہے یہ بندہ جو اتنی ساری (آپس میں متضاد) برائیوں کا بیک وقت مجموعہ ہے؟ کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں اس بندے نے اس ملک پر گذشتہ 74یا 65 سال میں اس ملک کا بیڑہ ہی غرق کردیا ہوگا جو اتنے مختلف غلیظ ناموں سے پکارا جاتا ہے کون لوگ ہیں اسے ان ناموں سے پکارنے والے؟ ملک و قوم کے وہ ہمدرد جنہوں نے 65 سال سے اس ملک کو ترقی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی؟ وہ زرداری جس نے کبھی بھوکی ننگی قوم کے پیسوں سے گھوڑوں کو مربے نہیں کھلائے؟ وہ شریف خاندان جس نے قوم کی ہڈیوں سے گودہ تک نچوڑ کر دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے کاروبار نہیں لگائے؟ وہ الطاف بھائی جس نے روشنیوں کے شہرمیں پچیس سال میں پچیس ہزار لاشیں نہیں گرائیں؟ وہ فضل الرحمن جس نے بینظیر سے لے کر مشرف اور زرداری سے لے کر شریفوں تک ہر حکومت میں چند وزارتوں کیلئے اسلام کا پاک نام نہیں بیچا؟یہ سیاسی اور صحافتی بچے جمہورے یہ سب کے سب اس کے مخالف آخر کیوں ہوئے؟

کیا اس وجہ سے کہ اس بندے نے قائد اعظم کے پاکستان کو پچھلی 6دہائیوں میں اس حال تک پہنچایا؟ اور کیا چیز ہے جو اس بندے کو بے چین رکھتی ہے؟ 69 سال کی عمر میں جبکہ لوگ اپنے بچوں کیساتھ پرسکون وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، اس عمر میں یہ بندہ پاکستان کے لیے بھاگ دوڑ رہا ہے پیسے کا تو اس بندے کو لالچ نہیں اور یہ دنیا جانتی اس نے تو اپنا کرکٹ سے کمایا ہوا اکثر پیسہ بھی اس ملک کے غریبوں کیلئے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں جھونک دیا۔ پیسہ ہی چاہیے ہوتا تو برطانیہ میں کسی کاؤنٹی ٹیم کی کوچنگ سنبھالتا اور ساتھ ہی کرکٹ میچوں میں کمنٹری سے کروڑوں کماتا پیسہ چاہیے ہوتا تو جمائمہ خان سے طلاق کے عوض ہی (برطانوی قوانین کے مطابق) اربوں وصول کرسکتا تھا شہرت کیلئے؟ عمران خان سے زیادہ شہرت بھلا کس پاکستانی کو اللہ نے دی ہوگی؟ وہ شخص کہ برطانوی شاہی خاندان جس کیساتھ اٹھنے بیٹھنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور انڈیا سے ترکی اور ڈیووس تک بغیر کسی سرکاری عہدے کے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہو واحد پاکستانی لیڈر ہے جس کو بیرونی دنیا میں کرپشن یا سوئس اکاؤنٹس یا بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے نہیں جانا جاتا بلکہ اس کا نام اچھے لفظوں میں لیا جاتا ہے اب ایسے بندے کو بھلا مزید شہرت کی کیا ضرورت ہوگی؟ کرپشن کیلئے؟ لیکن کرپشن کا تو یہ بندہ روادار ہی نہیں۔

پختونخوا میں تقریبا 8 سال سے حکومت ہے نا اس کی کوئی کارخانہ لگایا ہو اس نے؟ کوئی رشتہ دار سرکاری عہدوں پر لگوا دیا ہو؟ کسی کی سفارش کردی ہو؟ کوئی پلاٹ، کوئی بینک اکاؤنٹ، کوئی جدہ، ملائشیا، دبئی میں محل وغیرہ؟ نہیں کچھ بھی نہیں بلکہ واحد پاکستانی لیڈر ہے جس کے اثاثے ہر سال پہلے کے مقابلے میں کم ہوتے جارہے ہیں (ورنہ تو لوگ ایم این اے بن کر ہی سات نسلوں کا انتظام فرما لیتے ہیں) ایک اور بات کہ کیا بھکاری بننا آسان ہے؟ کسی کے آگے جھولی پھیلانا اور سوالی بننا؟ اور وہ بھی اپنے فائدے کیلئے نہیں بلکہ قوم کے سسکتے ہوئے غریب مریض بچوں کے واسطے وہ کیا چیز ہے جس نے اس آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، پاکستانی تاریخ کے مشہور ترین کرکٹراور کامیاب ترین کپتان کو بھکاری بننے پر مجبور کیا؟ یہ بندہ جھولی پھیلائے ملک اور بیرون ملک (صرف پاکستانیوں سے) پاکستانیوں کیلئے بھیک مانگتارہااور پھر اسے کوئی اسے بھکاری ہونے کے طعنے بھی سننے پڑے لیکن یہ بندہ پھر بھی پیچھے نہیں ہٹا یہ آسان نہیں تھاقدم قدم پر دل کو مارنا پڑتا ہے۔ اپنی عزت نفس، انا اور فخر کا خون کرنا پڑتا ہے یقین نہ آئے تو کبھی یہ کرکے دیکھ لیں جھولی پھیلا کر کسی دن لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں (وہ بھی اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے)۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر