دسمبر کی دھوپ

December

December

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

خالص مکھن اور دیسی گھی کے کڑک پراٹھوں کا ناشتہ کرنے کے بعد ان کو ہضم کر نے کے لیے میں قریبی وسیع و عریض پارک میں لمبی واک کرنے آیا تھاکئی میل کی طویل مسافت کے بعد پارک کے نرم و گداز مخملی سبز گھاس کے آرام دہ قالین پر اب میں حالت استراحت میں لیٹا سامنے اچھلتے کودتے ہرنوں کو دیکھ کر پارک کے فطری حسن کے ساتھ قدرت کے حیواناتی حسن کو بھی خوب انجوائے کر رہا تھا معدہ مرغن غذا سے بھرا ہوا طویل واک کے بعد میں جسم کو ڈھیلا چھوڑنے لیٹا تھا میرے اوپر اور چاروں طرف سورج کی تمازت سے بھرپور سرور امبر چاندی برس رہی تھی دسمبر کی خوشگوار دھوپ نے اعصاب و عضلات کے ساتھ دل و دماغ پر نشہ سا طاری کر رکھا تھا مہر بان سورج کی حرارت آمیز شعائوں نے رگوں میں دوڑتے خون میں زیست آمیز لہریں دوڑا دیں تھیں دسمبر کا روشن سورج فیاضی سے دھرتی کے باسیوں میں اپنی تمازت کھلے دل سے بانٹ رہا تھا دسمبر کی دھوپ میں بھر پور ناشتے کے بعد اگر آپ کھلے صحن چھت پر یا پھر کھیتوں میدانوں میں بھر پور واک کے بعد خود کو سورج کی حرارت کے حوالے کر دیں دل و دماغ کو ڈھیلا کھلا چھوڑ دیں تو یقینا آپ سرور آمیز لذت کے جہاں سے آشنا ہو تے ہیں۔

اِس وقت میں بھی سورج مہربان کی فیاضی سے بھرپور لطف اٹھا رہا تھا چاروں طرف پھولوں درختوں نیچرل جھاڑیوں اور ریشمی گھاس کی مہک پھیلی ہو ئی اور آپ فطرت کے رنگوں اور مناظر کو اپنی روح قلب کے نہاں خانوں میں اتارنے کا فن جانتے ہوں تو دسمبر کی دھوپ دن چھٹی کا دن یادگار ہو جاتا ہے آپ خلوت سے انجمن کا لطف لیتے ہیں آپ اپنے اور فطرت کے درمیان کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے اپنی تنہائی کے ہر لمحے سے یادوں کے جھولوں میں جھول کر لطف لیتے ہیں خاموشی خلوت گرینی گوشہ نشینی راہ حق کے مسافروں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے بلکہ متلاشیان حق کے سفر کے دوران پر ایسی کیفیت ضرور طاری ہو تی ہے جب حق کی تجلی اُن پر وارد ہو تی ہے تو پھر راہ حق کے مسافر پہاڑوں غاروں دریائوں نہروں جنگلوں کا مسافر بن کر گوشہ نشینی سے اپنے باطن میں چھپے لازوال خزانوں تک رسائی حاصل کرتا ہے پھر اِسی خلوت گرینی میں غور فکر تدبر کے الہام مکاشفے کی کھڑکیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

اِسی تنہائی کی ریاضت سے انسان خود شناسی سے اپنے اعلیٰ و ارفع مقام کو پہچاننے کے بعد حق تعالیٰ کے عظیم سفر کے بعد حق تعالیٰ کو پہچانتا ہے گوشہ نشینی خلوت کی لذت سے وہی آشنا ہو تا ہے جو خلوت کو انجوائے کر نے کا آرٹ جانتا ہو کہ کس طرح خولت کوانجمن بنا کر سرور حاصل کیا جاتا ہے میں اِس وقت اپنی ہی خلوت سے انجمن کا لطف لے رہا تھا اِس انجمن کی لذت سرور کو مہربان سورج اپنی کیف انگیز حرارت سے اور بھی یاد گار بنا رہا تھا سورج کی حیات آفرین شعائوں نے میرے جسم کے انگ انگ کو نشیلے احساس سے دو چار کر دیا تھا اگر آپ انسانی جسم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر آپ شدید گرمی میں ہوں اور اچانک ٹھنڈی ہوائیں یااے سی والے کمرے میں آجائیں تو جیسے ہی بیرونی ٹھنڈک اور جسم کا اندرونی نظام ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو چند لمحوں میں ہی انسان پر غنودگی سی طاری ہو تی ہے اور انسان نیند کی شفیق گود میں خراٹے لینے لگتا ہے اِسی طرح دسمبر کی سردی میں اگر آپ کھلے آسمان کے نیچے سورج کی حرارت سے اپنے جسم کو متعارف کر اتے ہیں تو سورج کی شعاعیں جیسے ہی آپ کے جسم میٹا بولزم رگوں میں دوڑتے خون کو خاص حرارت پہنچاتی ہیں تو آپ پر سرور آمیز کیفیت غلبہ پانے لگتی ہے یہ نشہ استغراق سے ہوتا ہوا آپ کو نیند کی بانہوں میں دھکیل دیتا ہے۔

نرم و گداز گھاس پر میں لیٹا ہوا اوپر سے دسمبر کی سورج کی مہربانی میرا جسم بھی استغراق سے فالجی سی کیفیت اور پھر مدہوشی کے سفر پر روانہ ہو کر اِس دنیا سے رابطہ ٹوٹنے لگا اِسی مدہوشی حالت میں انسان کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا کہ کوئی آپ کی گوشہ نشینی کو تار تار کر دے میں خلوت کی لذت کی وادیوں میںاِس جہاں سے دوسرے جہاں میں گم تھا کہ خوشبو کی حس نے الرٹ کرنا شروع کر دیا کسی کی آمد سراسراہٹ کا احساس بیدا ر ہونے لگا ساتھ ہی ناک کے نتھنوں سے گرما گرم الائچی خوشبو کی مہک ٹکرائی میں اِس مداخلت کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا دھیرے دھیرے بیداری کا عمل سٹارٹ کیا کہ کون ہے جو میری خلوت کی انجمن کو خراب کرنے آگیا ہے ۔ لیکن میری بیداری کے عمل کے بعد جو چہرہ میرے سامنے تھا اُس کو دیکھ کر میرے چہرے پر شفیق تبسم پھیلتا چلا گیا مادی دنیا کا چالاک انسان نہیں بلکہ معصوم سادہ بوڑھا مالی چھوٹی ٹرے میں دو گرما گرم کپ پکڑے میرے پاس بیٹھا تھا بابا مالی کو دیکھ کر میری ساری نیند غنودگی فوری رخصت ہو گئی میں خوشگوار مسکراہٹ کے اٹھ گیا اور بولا باباجی آپ نے مجھے کب کہاں سے دیکھ لیا تو بوڑھا مالی بولا سر جی میں آپ کو واک کر تے دیکھ رہا تھا۔

اِس انتظار میں تھا کہ کب آپ آرام کے لیے بیٹھ جائیں تو آپ سے ملاقات کروں جب آپ یہاں آکر لیٹ گئے تو میں نے اچھی کڑک دودھ پتی بنوائی اور آپ کے پاس آگیا میں نے باباجی کے ہاتھ سے گرما گرم خوشبودار بھاپ اڑاتا کپ کپڑا چائے کے رنگ پر نظر ڈال کر ستائشی نظروں سے باباجی کو دیکھا شکریہ ادا کیا اور گرما گرم شیریں چائے کا گھونٹ حلق سے اتار ا دسمبر کی دھوپ نرم و گداز گھاس اور گرما گرم چائے کا کپ ساتھ میںآپ کا پسندیدہ کردار سادہ معصوم انسان کوئی دنیا دار انسان میری خلوت میں مداخلت کر تا تو مجھے ناگوار گزرتا لیکن مالی باباتو خود فطرت کا رنگ تھا چند سال پہلے میری ملاقات اِس طرح ہوئی کہ میں پارک میں بیٹھا کسی کو موبائل پر ذکر اذکار بتا رہا تھاکہ یہ پڑھو اللہ کے فضل سے مسئلہ حل ہو جائے گا میری بات سن کر بابا میرے پاس آیا اور بولا جناب آپ اللہ والے ہو تو میں بولا مشت خاک ہوں اللہ والوں کا خادم ہوں تو بولا میں اپنی بیٹی کی وجہ سے بہت پریشان ہوں شادی کے تین سال بعد داماد دو بچوں کے ساتھ میرے گھر چھوڑ گیا اب بہت معافیوں کے بعد بھی لینے نہیں آتا میں بہت بابوں مزاروں پر جا چکاہوں میری اکلوتی بیٹی اُجڑ کر گھر بیٹھی ہے مجھے کچھ پڑھنے کو بتائیں تو میں نے باباجی کو اللہ کے نام لکھ کر دئیے اِس طرح میری باباجی سے کبھی کبھار پارک میں ملاقات ہو جائی پھر اللہ تعالی نے مُجھ گناہ گار کو ہمیشہ کے طرح عزت دی کہ ناراض داماد گھر آگیا اور باباجی کی بیٹی کو اپنے گھر لے گیا۔

اِس طرح بابا مالی میرے قریب آگیا ہماری آشنائی بڑھتی چلی گئی میں جب بھی پارک جاتا باباجی سے ملاقات ہو جاتی بیچارہ شریف انسان میری بہت عزت کرتا پھر چند سال بعد باباجی کا ریٹائر منٹ کا وقت آگیا تو جانے سے چند دن پہلے مجھے ملے اور بولے میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز آپ کو بتانا چاہتا ہوں یہ بیٹی میری نہیں ہے بلکہ سالوں پہلے مجھے پارک کے کونے میں ملی تھی میں بے اولاد تھا اِس کو اپنی بیٹی بنا لیا اب بوڑھا ہو گیا ہوں میرے مرنے کے بعد اگر آپ کے پاس آیا کرے تو اِس کی مدد کر نا پھر بابا بہت رویا مجھے بھی دکھی کر دیا کہ کتنا بڑا انسا ن ہے یہ کسی کی اولاد کو سگے والدین کی طرح پالا ساری زندگی کی کمائی سے گھر بنایا جو اُس کے نام کر دیا اب بابا میری نظر میں کوہ ہمالیہ سے بڑا انسان تھا اب یہ کبھی کبھار اپنے پرانے دوستوں سے ملنے آجاتا ہے آج مجھے دیکھا تو آگیا اپنی بیٹی کی باتیں کرنے لگا اور بولا سر جی آج کل بڑے بڑے لوگ کرونا کے بعد پھر یہاں سیر کرنے آتے ہیں تو میں نے بابا جی کا ہاتھ پکڑا اور بولا یہ بڑے بڑے لوگ آپ کے سامنے کیڑے مکوڑے ہیں باباجی دیر تک باتیں کرنے کے بعد رخصت ہو ئے تو میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا دسمبر کی دھوپ کا فطری مناظر اور بابا جی کی صحبت کا مزا آ گیا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org