کرپشن، حکومت اور اشرافیہ

Corruption

Corruption

تحریر: ایم سرور صدیقی

شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی (Definition) تعریف کیا ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔۔۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں یہ تو بڑی بات قلم سے لکھ دی گئی ہے ۔۔۔ اور تو اور پاکستان میںتو ایک معمولی اہلکار اپنے دفتر کے افسر ِ اعلیٰ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے

بعینہ’ ایک کانسٹیبل کا بس چلے تو وہ SHOکے اختیارات انجوائے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا خیر پاکستان میں یہ معمولی باتیں ہیں ہمارے پڑوسی اور دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کہلوانے والے ملک میں کچھ ماہ قبل تیزی سے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والی ”عام آدمی پارٹی ” نے دہلی میں سرکار بنائی تھی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ دہلی کے وزیر ِ اعلیٰ اروندک یجریوال کرپشن کے خلاف کے میدان میں آئے انکے اقدامات کو عوام نے بے حد سراہا لیکن اس کے باوجود ان کی کرپٹ عناصر کے آگے ایک نہ چلی جب انہوںنے کرپشن کے خلاف اسمبلی میں قانون سازی کرنا چاہی مگر ناکام رہے

تو وہ احتجاجاً کابینہ سمیت مستعفی ہوگئے۔۔۔اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتاہے کہ روندک یجریوال نے کرپٹ عناصرکے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔۔۔ ان کا استعفیٰ ایک اچھی روایت ہے بلکہ اسے روایت ساز بھی کہا جا سکتاہے ۔۔پاکستان میں تو سرے سے ایسی کوئی روایت ہی نہیں یہاں تو ایک سابق صدر ۔۔دو سابق وزراء اعظم سمیت 8000سے زائد سیاستدانوں، فوجی افسروں ، بیورو کریسی میں کرپشن۔۔۔

کرپشن کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔۔ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کیلئے ”نیب ” جیسا ادار ہ موجود ہے۔۔انٹی کرپشن کا محکمہ بھی ہے ۔۔FIA میںبھی کرپشن کے کئی معاملات کی تفتیش ہوتی ہے لیکن جس معاشرے میں رشوت کے الزام میں گرفتار ہونے والا رشوت دے کر چھوٹ جائے وہاں اصلاح ِ احوال کی تمام کوششیں دم توڑ جاتی ہیں یہ توخود بھی شرمسارہو مجھ کو بھی شرمسار کر والا معاملہ ہے۔

لگتاہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماگئی ہے اس لئے سائلین ذلیل و خوار ہوتے ہیں جونہی سائل نے باربار چکر لگانے سے تنگ آکر مجبوراً کسی اہلکارکی مٹھی گرم کی حالات ہی بدل جاتے ہیں جو کام کئی ماہ سے اٹکا ہوتاہے دنوںمیں ہو نے کی سبیل نکل آتی ہے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنمائوںنے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں

Balochistan

Balochistan

کراچی ، بلوچستان اور دیگر شہروں میں امن و امان کا مسئلہ بھی اسی لئے الجھاہوا ہے کہ مجرم ذہنیت لوگوںنے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنارکھا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں یہ عناصر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان کے علاقوں میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا گیاہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے

یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔۔انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو دہلی کے سابقہ وزیر ِ اعلیٰ اروندک یجریوال نے بھارت کے بے ایمان معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسیدکیاہے

جس سے ہر کرپٹ کا منہ سرخ ہورہاہے۔۔۔پاکستان میں بھی ایسی ہی روایت کی طرح ڈالنی ہوگی ہمارے حکمران دن رات عوام کی خدمت کے دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو کسی طور ریلیف نہیں مل رہی۔۔جتنا پاکستانی معاشرہ بگڑ چکاہے۔۔ متعدد محکموں کی کارکردگی سے جتنے لوگ تنگ ہیں یا پھر جتنی بہتری لائی جا سکتی ہے ان کیلئے ایک مربوط حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔

انڈیا میں تو کرپشن کے خلاف ایک سماجی رہنما انا ہزارے ایک علامت بن کر ابھراہے اس کے بعد روندک یجریوال نے اس کی سوچ کو مزید تقویت دی پاکستان میں ڈاکٹرطاہرالقادری اور عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا ہے ان میں خوبیاں اور خامیاں یقینا موجود ہوں گی لیکن جس انداز سے وہ کام کررہے ہیں معاشرے کا ہرطبقہ متاثر ہوتا جارہاہے حالانکہ یہ کام علماء کرام، درگاہوں کے گدی نشینوں اور سماجی رہنمائوں کا تھا جو اب سیاستدانوںنے سنبھال لیاہے ہمارا مذہب تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے

ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنمائوں اور اداروںکو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔ کیا میاں نواز شریف جانتے ہیں کچھ لوگ ان کو قوم کی آخری امید سمجھتے ہیں؟ شاید اسی وجہ سے بیشترپاکستانیوںکو ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں جس کا تقاضا ہے

وہ ملک میں امن وامان کے قیام، مہنگائی کے خاتمہ ،سماجی انصاف اور ہر سطح پر ظلم کی حکومت ختم کرنے کیلئے اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کریں حضرت علی کا فرمان ہے کہ کفرکی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں اسلام آباد میںدھرنوں سے پیداہونے والی صورت ِ حال کا جائزہ لینے کیلئے سینٹ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کئی روز جاری رہا لیکن یہ عوام کی کتنی بد نصیبی ہے کہ کسی نے عوام کے کسی مسائل پر بات کرنا پسند نہیں کیاعمران خان اور طاہرالقادری مسلسل حکمرانوںکی کرپشن بے نقاب کررہے ہیں۔

آج وطن عزیز پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں،ملک میں قیامت خیز مہنگائی سے غریبوں کا جینا عذاب بن گیا ہے ،بیروزگاری اورغربت نے عوام کی خوشیاں چھین لی ہیں کرپشن،دہشت گردی،ڈرون حملے،انتہاپسندی جیسے حالات میں جو لوگ میاں نوازشریف کوپاکستان کا سب سے بڑا قومی رہنما سمجھتے ہیں اب تو وہ بھی پریشان ہوتے جارہے ہیں اس ملک میں سب وسائل اشرافیہ کیلئے مختص ہوکررہ گئے ہیں اور غریبوںکو وہی محرومیاں مل رہی ہیں ملکی حالات ، امن و امان کی صورت ِ حال اور کرپشن نے محب وطن پاکستانیوں کو انتہائی اضطراب میں مبتلاکرکے رکھ دیا ہے

غریبوں کے بہت سے کام صرف حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ۔۔۔بہتر انتظامی حکمت ِ عملی،ٹھوس منصوبہ بندی سے ہی ہو سکتے ہیں ۔اداروں میں روایتی لاپرواہی ۔ارباب ِ اختیارکی بے حسی اور ہربات پر مٹی پائو کی صورت ِ حال نے مسائل کو مزید گھمبیر کرکے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں کیا شاید اسی پالیسی پر آج بھی عمل ہورہا ہے حالانکہ حکومت کا اصل کام عوام کا معیار ِ زندگی بلند کرنا اورغربت کم کرنا ہے عوام تو مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اس بارے حکمرانوں کوسوچنا چاہیے ۔۔۔

ایک بات قابل ِ غور ہے کہ جب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی پاکستان کی نازک ترین صورت حال پر سیاستدانوںکا جوکردار ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آرہا کرپشن،اقربا پروری اور اشرافیہ کا اختیارات سے تجاوز بھی سنگین مسائل بن چکے ہیںجس سے لوگ مایوس کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ حکمرانوں کو یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ معاشی چکی میںپسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیںحکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں

جس سے عوام کو ریلیف مل سکے لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور کرپشن جیسی لعنتوںسے پاک،خوشحال ،پر امن اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط پاکستان بنانے کیلئے میاں نوازشریف کو پہلے سے زیادہ غور،فکر اور محنت کرنی چاہیے۔ امید۔خوش فہمی ۔یقین اور جاگتی آنکھوں کے سپنے ہمیں مسلسل حوصلہ دیتے رہتے ہیں شاید اسی لئے یہ کہاوت ضرب المثل بن گئی ہے امید پر دنیا قائم ہے۔۔۔ اللہ کرے ہماری سب کی امید قائم رہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی