جمہوری نظام حکومت میں بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے

چکوال : جمہوری نظام حکومت میں بلدیاتی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس نظام کو جمہوریت کی روح بھی کہا جاتا ہے اور یہ نظام قوم اور ملک کو اعلیٰ قیادت فراہم کرنے کی ایک نرسری بھی تصور ہوتا ہے اسی اہمیت کے پیش نظر اس نظام کو اٹھارویں ترمیم میں آئین کا حصہ بنایا گیا ہے اور اب یہ صوبوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں مگر افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ ملک کی جمہوری اور سیاسی حکومتوں نے اس نظام کو رائج کرنے میں پس و پیش سے کام لیا ہے اور وہ اس آئینی ضرورت کو پورا کرنے میں جان بوجھ کر ناکام رہے ہیں اب سپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ حکومتیں چار و ناچار ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے پر مجبور ہوئی ہیں اور اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو یہ حکم جاری کر دیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں 7دسمبر کو بلدیاتی انتخابات منعقد کرواے جائیں۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں اور چکوال جو سیاسی میدان میں ایک سرگرم ضلع ہے کسی سے بھی پیچھے نہیں ہے۔ابتدائی طور پر اس ضلع میں نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ان حلقہ بندیوں پر ضلع کی حزب مخالف جماعتوں نے شدید تنقید کی ہے چکوال میں حزب مخالف کے ایک بڑے رہنماء سردار غلام عباس نے ان حلقہ بندیوں کے عمل کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے اسی طرح تحریک انصاف نے بھی ان نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کر رکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا بھی ان نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل پر حیران ہے اور جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور جس طرح عید کی چھٹیوں میں معاملات کو نمٹایا گیا ہے اس پر اس کی تنقید بجا ہے۔

مسلم لیگ ن نے اس سارے عمل میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے حکمران جماعت کا یہ طرز عمل کئی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور اس عمومی تصور کو تقویت ملتی ہے کہ مسلم لیگ ن سول بیوروکریسی کی چھتری کے نیچے انتخابی دھاندلی کی سازشوں میں مصروف ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت اپنے اوپر لگائے کئے الزامات کا جواب دے اور اس تاثر پر بھی اپنا موقف واضح کرے کہ جس کے مطابق وہ پولیس اور سول انتظامیہ کی دھونس کے ذریعے ممکنہ بلدیاتی امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانے میں مصروف ہے۔آج کل بڑے بڑے گرپوں کے سرکردہ افراد انہیں چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں اقتدار اور جیت کی خاطر اپنے نظریات اور جماعتیں بدلنے والوں پر عوام کو کڑی نظر رکھنا ہو گی۔

بلدیاتی انتخابات کا مقصد عام آدمی کو اوپر آنے کا موقع فراہم کرنا ہے مگر چکوال میں تمام ممکنہ بڑے گروپوں کے سر کردہ افراد اور لیڈرز کاتعلق سرمایہ دار،جاگیردار،صنعتکار ، ٹرانسپورٹ اور کاروباری طبقے سے ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے مفادات کی خاطر جماعتیں اور گروپس بدلتے رہتے ہیں انہیں عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے نئی حلقہ بندیوں پر ان کا شور و غل محض ایک شغل ہی ہے تاکہ لوگوں کو اسی طرف متوجہ رکھا جا سکے اور عام آدمی ان انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے سے دور رہے اب یہ چکوال کے عوام کا فرض ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور میدان عمل میں قدم رکھیں طبقہ اشرافیہ پر انحصار کی بجائے اپنے نمائندے ان انتخابات میں سامنے لائیں اور انہیں کامیاب کروائیں یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے سے گریزاں رہی ہیں انہیں ڈر تھا کہ اس نظام سے عام آدمی کو بھی ملکی سیاست میں حصہ لینے کا موقع مل سکتا ہے اور وہ اوپر آکر ان کی حرکتوں کو بخوبی دیکھ بھی سکتا ہے اور سمجھ بھی سکتا ہے لہذا اب ایک بار گیند عوام کے کورٹ میں ہے کہ آیا وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتے ہیں یا پھر یہ فیصلہ اسی دو فیصد طبقے کے سپرد کر دیتے ہیں۔