صحرا میں پیاسی اموات

Desert

Desert

یہ تیونس کی ایک لڑکی شفا کی کہانی ہے جو اپنے ملک سے ایک بڑے صحرا کو عبور کر کے پڑوسی ملک کا سفر کر رہے تھے۔ ان کی منزل مصر تھی اور اَن دیکھے خوابوں کی تکمیل کے لئے انہوں نے سفر شروع کیا جو آخر موت کا سفر ثابت ہوا۔ دکھوں بھرے اس سفر کی پہلی مشکل تب سامنے آئی جب یہ اوراِن جیسے بیسیوں دوسرے لوگ غیر قانونی طور پر ٹرکوں پرسفر کرتے جا رہے تھے کہ “الجیریا” کے بارڈر پر فوجیوں نے انہیں روکنا چاہا تو ڈرائیوروں نے پکڑے جانے کے خوف سے واپس پلٹنا شروع کر دیا اور یہ سوچے بغیر ٹرک بھگاتے گئے کہ اِن میں پٹرول بھی ہے کہ نہیں۔ آخر بیچ راستے میں ٹرکوں کا ایندھن ختم ہوا اور وہ ریت کے سمندر میں بے یارو مددگار کسی مسیحا کی راہ تکنے لگے مگر سینکڑوں میل تک کچھ بھی میسر نہ تھا۔ شفا، اسکی دو بہنوں اور ماں سمیت باقی عورتوں اور بچوں کا یہ قافلہ رات کی تاریکی میں پیدل ہی کسی انجان منزل کی طرف روانہ ہوا۔ نہ راستہ تھا نہ ٹھکانہ، بھوک و پیاس سے زبانیں باہر آرہی تھیں، کئی عورتیں اور بچے موت کا شکار ہوئے۔ لوگ اپنے پیاروں کو وہیں ریت میں دفناتے اور آگے بڑھ جاتے۔

ڈرائیور اتنا ظالم تھا کہ اپنی کین میں رکھے پانی کی دو بوند دینے کو تیار نہ تھا۔ اس پر کسی کے واسطہ اور منت کا کوئی اثر نہیں تھا۔ سفر کو دو دن ہو گئے تھے۔ پانی اور خوراک بالکل ختم ہو چکی تھی۔ راستے میں کھڑی ایک پک اپ میں ہڈیوں کے تین ڈھانچے ان کے انجام کا پتہ دے رہے تھے۔

شفا کی بوڑھی ماں پیاس سے ہلکان تھی۔ اس کی دونوں بہنیں زرد چہروں کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ راستے میں ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نہ ہونے والے سائے میں بیٹھے تھے کہ اْن کی ماں کا سر ڈھلک گیا اور اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ شفا کی بلکتی آواز صحرا میں محض ایک گونج بنی او ر کوئی مدد کو نہ آیا۔ اس نے اپنی ماں کا منہ چادر سے ڈھانپ دیا اور بے تحاشہ روئی۔ پھر ساری ہمتیں جمع کر کے ہاتھوں سے ریت کا ٹیلا کھودا اور ایک بہن نے ماں کے بازو پکڑے اور شفا نے پاؤں اور اس گڑھے میں ڈال کر ریت سے بھر دیا۔ نہ کفن تھا، نہ جنازہ۔ وہ اپنی دونوں بہنوں کے ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی۔ دور جاتے جاتے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ریت کا ڈھیر ان کی ماں کی شبیہ بنا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر اس سے لپٹنا چاہتی تھیں لیکن دھوپ اور پیاس اْنہیں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک دن مزید چلتی رہیں، اس کے باوجود حدّ نظر تک ریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ شفا کی چھوٹی بہن اپنی ماں کی موت سے اگلے دن موت کا شکار ہوئی۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا اور آخر ایک جگہ ڈھیر ہو گئی۔ شفا نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھا تو جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا اور اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔

Sand

Sand

شفاماں کی موت پر یوں چیخی تھی کہ صحرا بھی کانپ اٹھا تھا لیکن بہن کی موت پر اس کی خاموشی نے صحرا کوبھی حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے اسے بھی ایسے ہی دفنایا جیسے اپنی ماں کو دفنایا تھا۔ اور چپ چاپ قدم بڑھا دئیے۔ طویل مسافت کے بعد ریت پر آگے بڑھتے ہوئے آخر کار ایک سڑک آگئی اور یوں لگا جیسے منزل قریب آ گئی ہے۔ اس نے سڑک کے دونوں جانب دور تک دیکھنے کی کوشش کی اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھا تو چھوٹی بہن بھی سڑک کنارے جان دے چکی تھی۔ وہ دھاڑیں مار مارکر اس ننھی جان کو پکار رہی تھی۔ روتے روتے اس نے دیکھا کہ سڑک پر ایک چھوٹا ٹرک آ رہا ہے۔ وہ سڑک کے درمیان میں کھڑی ہو گئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے روکنے کا اشارہ کیا۔ ٹرک رکا اور اس سے دو آدمی باہر آئے ان کے آنے تک وہ گر کر بے ہوش ہو چکی تھی۔ اسے ہوش آیا تو وہ ٹرک میں پڑی ہوئی تھی۔ اس نے اٹھ کر کیبن سے ٹرک کا پچھلا حصہ دیکھا تو وہاں کوئی لاش چادر میں پڑی تھی۔ ٹرک ڈرائیور نے اسے چائے اور بسکٹ دیئے اور قریبی قصبے پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے اس کی بہن کی تدفین کی۔ جنازے میں چند لوگ شامل ہوئے اور شفا دور کھڑی آنسو بہاتی رہی، وہ اپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔

اگلے دن تیونس کے اخبارات میں یہ ہولناک کہانی چھپی تو انسانی حقوق تنظیمیں متحرک ہوئیں۔ فوری طور پر تیونس سے شمال کی جانب عورتوں اور بچوں کے سفر کرنے 80 پر پابندی عائد کر دی گئی اور اقوام متحدہ نے رپورٹ جاری کی کہ ہزار سے زائد تارکین وطن لوگ اس صحرا میں موت کا شکار ہوئے ہیں۔

زندگی موت کے بن ادھوری ہے پھر بھی جانے کیوں اس حقیقت سے آنکھیں چرائی جاتی ہیں۔ ہر کوئی موت سے ڈرتا ہے اور بھاگتا ہے لیکن موت آخر گھیر ہی لیتی ہے۔دنیا میں شفا کہ علاوہ بھی بہت سے واقعات آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔موت سے کسی کو ڈرنان ہیں چاہیے لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ جان بوجھ کر موت کے کنوے میں چھلانگ لگائی جائے۔

لوگ بھوک اور غربت کی وجہ سے اپنے ممالک سے دوسرے ممالک میں جب چھپ چھپا کہ جاتے ہیں تو راستے میں جن دشواریوں سے اُن کو گزرنا پڑتا ہے۔ وہ اتنی خوفناک ہوتی ہیں کہ روح تک کانپ جاتی ہے کئی اموات تو بہت ہی عبرتناک ہوتی ہیں۔ دنیا میں غیر قانونی طریقوں سے دوسرے ممالک میں جانے والوں کی روک تھام کے لئے بے شمار پابندیاں لگی ہیں اور بیشمار تنظیمیں بھی اس کے خلاف متحرک ہوئی ہیں لیکن بھوک اور غربت سے تنگ افراد نہ ہی رُکے ہیںاور نہ رُک سکیں گے اور ایسے صحرا بیشمار افراد کو اپنے اندر نگلتے رہیں گے۔

Jamshaid Azam

Jamshaid Azam

تحریر : جمشید اعظم