دوحہ امن ڈیل: ’ہم ضمانت دہندہ نہیں سہولت کار ہیں، شاہ محمود

Shah Mehmood Qureshi

Shah Mehmood Qureshi

راولپنڈی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن ڈیل ایسے تمام حلقوں کے لیے ایک کامیابی ہے، جو افغانستان میں قیام امن چاہتے ہیں اور جنگ کے بجائے سیاسی حل کے حق میں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن ڈیل ایسے تمام حلقوں کے لیے ایک کامیابی ہے، جو افغانستان میں قیام امن چاہتے ہیں اور جنگ کے بجائے سیاسی حل کے حق میں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوحہ میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں امریکا اور طالبان کے مابین تاریخی ڈیل پر اپنے ردعمل میں کہا کہ جو کوئی بھی امن و استحکام کا خواہش مند ہے اور تنازعے کے سیاسی حل کے حق میں ہے، وہ آج جیت گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اس ڈیل کی وجہ سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان بہت خوش ہیں کیونکہ وہ کئی برسوں سے اسی طرح ہی کی کسی ڈیل کی حمایت کر رہے تھے اور آخر کار ان کے خیال کو حقیقت کا رنگ دے دیا گیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول عمران خان شروع ہی سے اس موقف کے حامل تھے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کوئی فوجی حل کارگر نہیں ہو سکتا۔ قریشی نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ ہی یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں امن کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے اور اب ان کے اسی خیال کی عملی حقیقت سب نے دیکھ لی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں داخلی سطح پر شروع ہونے والے امن مذاکرات میں اسلام آباد حکومت کا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت افغانستان میں کسی خاص گروپ کی حمایت نہیں کرتی بلکہ اسلام آباد سب کے ساتھ رابطوں کے لیے تیار ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹر شامل شمس سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ وہ افغانستان میں کسی ایک خاص نسلی گروپ کی حمایت نہیں کرتے بلکہ تمام نسلی برادریوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

اس کے برعکس افغان حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں مخصوص گروہوں کی حمایت کرتی ہے تاکہ اپنی اس ہمسایہ ریاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکے۔ اسلام آباد کابل کے ان الزامات کو سرے سے مسترد کرتا ہے۔

افغانستان میں قیام امن اور مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حقیقی فیصلہ افغان عوام کو ہی کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ قریشی نے کہا کہ پاکستان کوئی ‘ضمانت دہندہ نہیں بلکہ سہولت کار ہے‘۔

پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق اگر مستقبل میں پاکستان کو مدعو کیا گیا تو وہ مبصر اور ثالث کا کردار ادا کرے گا اور آگے بڑھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی کسی بھی اور ہر کوشش میں پاکستان کا مقصد امن کا حصول ہی رہے گا۔

امریکا اور طالبان کی اس ڈیل کے تحت آئندہ چودہ ماہ میں افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل کر لیا جائے گا۔ اس دوران طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز سات روزہ جزوی فائر بندی پر بھی متفق ہو گئے ہیں، جسے مکمل جنگ بندی کی طرف پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں داخلی سطح پر امن مذاکرات کا آغاز دس مارچ سے ہو گا، جس دوران تمام داخلی مسائل زیر بحث لائے جائیں گے۔ انہی مذاکرات کے دوران افغانستان میں مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔

تاہم دوسری طرف کچھ حلقے اس افغان مذاکراتی عمل کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ہفتے کے دن دوحہ میں کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کی راہ میں کئی رکاوٹیں سامنے آ سکتی ہیں۔

ادھر آج اتوار یکم مارچ کو افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے دیا گیا امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والی تاریخی ڈیل کے تحت پانچ ہزار زیر حراست طالبان کی رہائی کے حوالے سے متنازعہ بیان بھی خبروں کی زینت بن رہا ہے۔

امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل پر دستخطوں کے ایک دن بعد افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست مذاکرات کو طالبان قیدیوں کی رہائی سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اور طالبان کے مابین ہفتہ انتیس فروری کو طے پانے والی امن ڈیل میں قیدیوں کی دوطرفہ رہائی بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

اس پیش رفت کے بعد خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکا اور طالبان کی ڈیل کے بعد افغانستان میں داخلی مذاکرات کا سلسلہ کافی پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے۔ طالبان اشرف غنی کی حکومت کو ‘کٹھ پتلی‘ حکومت قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اگر یہ اختلافات دور نہ ہوئے تو افغان عوام کا ان کے ملک میں قیام امن کا خواب پورا ہونے میں اور زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔