گھریلو تشدد بل

Domestic Violence

Domestic Violence

تحریر : ام محمد عبداللہ

”مبارک ہو! گھریلو تشدد بل مذہبی جماعتوں کی کوششوں سے روک دیا گیا ہے۔“ رقیہ نے بڑی خوشی سے اپنی دوست کلثوم کو فون ملا کر پرجوش انداز میں اسے خبر سنائی۔ ہمم! اچھی بات ہے۔ کلثوم نے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔ کیا مطلب؟ اچھی بات ہے۔ تمہیں اتنی بڑی خبر سن کر خوشی نہیں ہوئی۔ رقیہ اپنی دوست کی گرم جوش آواز سننا چاہ رہی تھی مگر اس کا عام سا لہجہ اسے حیران کر گیا۔ میں کچھ اور سوچ رہی تھی۔ کلثوم نے سچائی سے جواب دیا۔ رقیہ ہمارے معاشرے کی سب خواتین کا معاملہ تمہارے جیسا مثالی نہیں ہے۔ کیا مطلب؟ رقیہ حیران ہوئی۔

تمہارے شوہر عثمان بھائی ایک دیندار شخص ہیں۔ وہ واقعی تمہیں گھر کی ملکہ اور آبگینہ تصور کرتے ہیں۔ تمہاری ضروریات ہی کی نہیں بلکہ جائز خواہشات کی بھی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ان کی ہمراہی میں تمہیں نہ صرف معاشرتی بلکہ جذباتی تحفظ بھی حاصل ہے۔ ہاں، الحمدللہ! ایسا ہی ہے۔ اسی لیے تو میں اس بل کے خلاف ہوں کہ اس کے ذریعے ہم عورتوں کو شوہروں کے مضبوط سائبان سے محروم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، لیکن یہ بھی تو مانو کہ پاکستانی معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ نہیں ہے اور سب عورتیں تمہاری طرح خوش قسمت بھی نہیں۔ ہمارے مردوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیویوں کو آبگینہ کے بجائے اب بھی پاؤں کی جوتی ہی تصور کرتی ہے۔ بہت سے مرد معاشی ذمہ داری بھی ڈھنگ سے نہیں اٹھاتے یا پھر جو اٹھاتے ہیں وہ احسان جتلا جتلا کر بیوی بچوں کا خون خشک کیے رکھتے ہیں۔ اسی طرح میکے سسرال میں بیویوں کی عزت نفس پر حملہ کرنا اور انہیں قطع رحمی پر مجبور کرنا بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔

کلثوم ایک کڑوا سچ بول رہی تھی۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو مگر یہ سب اس بل اور عورت مارچ جیسے فتنوں کا جواز تو نہیں ہے۔ رقیہ کو اس سب سے سخت اختلاف تھا۔ تمہارے اختلاف کی وجہ تمہاری آسودہ ازدواجی اور گھریلو زندگی ہے رقیہ۔ ذرا ان عورتوں کے دلوں میں جھانک کر دیکھو جو شوہروں کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہیں اور جنہیں ان کی موجودگی میں بھی معاشرتی اور معاشی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ جو اپنے صاحبان کی عدم توجہ کا شکار اور محبت و ستائش کے دو بولوں کو ترسی ہوئی ہیں۔ ان کے سامنے جب اس طرح بظاہر ان کے حق میں بات کی جاتی ہے تو وہ شکر کرتی ہیں کہ چلو کہیں تو ان کے دکھ درد کو سمجھا گیا۔ کوئی تو ہے جو ان کے لیے آواز اٹھا رہا ہے، لیکن یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرو کلثوم کہ اگر باپ اور شوہر یوں عدالتوں میں گھسیٹے جانے لگے تو مرد نکاح سے ہی بیزار ہو جائیں گے۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ گھر بسائیں، ذمہ داری اٹھائیں اور پھر عدالتوں میں ذلیل بھی ہوں۔ اس کی بہ نسبت کیریئیر بنانا اور دولت کمانا زیادہ پرکشش ہو گا۔

نکاح کا بندھن نہیں ہو گا تو فحاشی اور عریانی معاشرے کو تباہ و برباد کر دے گی۔ رقیہ‘ ممکنہ مستقبل کا نقشہ دیکھ کر اندر ہی اندر لرز رہی تھی۔

یہ تو بعد میں ہو گا۔ سر دست تو مظلوم طبقے کو یہ سب اپنی جانب کھینچ رہا ہے کیونکہ ہمارا میڈیا بھی اسی سمت میں عوام الناس کی ذہن سازی کر رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مظلوم کی دادرسی ہونی ہی چاہیے۔ کلثوم کو شوہروں کے ہاتھوں دکھ اٹھاتی عورتوں کا درد تکلیف دے رہا تھا۔ کلثوم! ان سب باتوں سے تمہارا کیا مدعا ہے؟ کیا تم چاہتی ہو کہ یہ بل ہمارے آئین کا حصہ بن جاٸے؟ رقیہ نے حیرت اور افسوس کے ملے جلے لہجے میں کہا۔ ہر گز نہیں۔ ایسا ہوا تو ہماری عورتوں کے ساتھ آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹکا بلکہ دلدل میں دھنسا والا معاملہ ہو جائے گا۔ کلثوم نے اپنی بات پر زور دینے کے لیے محاورہ ہی بدل ڈالا۔ تو پھر؟ رقیہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔ تو پھر یہ کہ ان مسائل کا حل یورپ کے ناکام معاشرتی نظام سے لینے کے بجائے متحد ہو کر اسلام کے بابرکت معاشرتی نظام کے سائے تلے آنے میں ہے۔

رقیہ ہمیں اپنے گھروں کے استحکام کے لیے جہاں ایسے بلوں کے خلاف کھڑے ہونا ہے وہاں اسلامی معاشرت کے قیام کے لیے بھی ان تھک محنت کرنی ہے اور یہ سب صرف دینی حلقے ہی کر سکتے ہیں۔

جیسے دینی حلقوں نے اس بےہودہ بل کے خلاف مزاحمت کی ہے، بالکل ایسے ہی سب مل کر مردوں کو ان کے قوام ہونے کا اصل مطلب بھی سمجھائیں۔ شادی بیاہ سمیت خوشی غمی کے تمام موقعوں پر غیر اسلامی رسموں اور جہیز کی لعنت کے خلاف مزاحمت ہو۔ فحاشی پھیلاتے میڈیا کے خلاف سب اکھٹے ہوں اور کوئی بھرپور عملی قدم اٹھایا جائے حق وراثت اور حق مہر کی ادائیگی جیسے اہم معاملات پر مردوں کی ذہن سازی کی جائے۔ غرض اب ہمارے مردوں کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز حیات کے مطابق اپنی عورتوں کا محافظ بننا ہو گا۔ انہیں آبگینہ سمجھتے ہوئے اپنی محبتوں کے حصار میں لینا ہو گا۔

Violence

Violence

انہیں گھر کی ملکہ بنا کر اپنی نسلوں کی بہترین تربیت کو یقینی بنانا ہو گا۔ کلثوم نے اپنا نقطہ نظر واضح کیا۔ لیکن تم صرف مرد ہی کے فرائض پر زور کیوں دے رہی ہو؟ عورتیں بھی تو ہر جگہ مظلوم نہیں۔ وہ بھی کئی مقامات پر کوتاہی کر جاتی ہیں۔ انہیں بھی اپنے فرائض نبھانے ہوں گے۔ رقیہ نے کہا تو کلثوم کہنے لگی۔ ہاں بالکل! اب اسی نہج پر کام ہونا چاہیے ایک طرف غیر فطری غیر اسلامی ان بلوں وغیرہ کا راستہ روکا جائے اور دوسری جانب عین فطری اسلامی معاشرت کے قیام کے لیے عوام الناس کی ذہن سازی اور تربیت کا کام ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔ اس ضمن میں آگاہی مہمات و تحریکیں چلیں اور بل بھی پاس ہوں کہ میاں بیوی اپنے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے نبھائیں۔ اپنے گھروں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ دشمن کی ہمارے گھر توڑنے کی ہر سازش تاقیامت ناکام و نامراد ہی رہے۔ آمین ثم آمین! دونوں سںہیلوں نے یک زبان ہو کر کہا۔

تحریر : ام محمد عبداللہ