" شادی " میرے نبی کی سنت

Society

Society

تحریر:حلیمہ سعدیہ
آ پ کو پتہ چلا اختر صاحب کی منجھلی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ارے بھائی سنا تھا کافی عرصے سے دونوں پسند کرتے تھے ایک دوسرے کو مگر اختر صاحب اپنی ضد پر تھے مان کر نہیں دیئے یہ اخترصاحب کی گلی مین رہنے والے دو لوگ تھے . . . جس تیزی کے ساتھ آج کل ہمارے معاشرے میں بھاگ کر شادی کرنی کا رحجان بڑھ رہا ہے وہ ایک حساس انسان کے لیے واقعی قابل غور ہے

” شادی ” میرے نبی کی سنت ، اور انسان کی بنیادی ضرورت ہے . . . لیکن کم عمری میں ان موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے ذریعے عشق و معشوقی ہمارے معاشرے میں بھاگ جانے کو پروان چڑھا رہی ہے جسکی ایک سب سے بڑی وجہ اِس صورت حال میں ماں باپ کا غلط رویہ ہے . ان حالات میں ماں باپ اولاد کا ساتھ چیر دیتے ہیں . جب اولاد کسی کو پسند کرنی لگتی ہے تو دانستہ یا نا دانستہ وہ یہ بات ہر کسی سے چھپا کر رکھنا چاہتی ہے مگر یہی بات جب وہ اپنی ہَم جولیون کے ساتھ بیٹھ کر کہتی ہے تو بالکل بے ججھک ، بے فکر ہو کر . کے کوئی اسے کتنا پیار کرتا ہے اسے کتنا چاہتا ہے

اسلام کو رکھ کر دیکھا جائے تو یہ پیار محبت کا کوئی وجود نہیں مگر معاشرہ ، معاشرہ محبت کو لازم و ملزم بتاتا ہے . محبت ہر کسی کو ہوتی ہے اور اِس پر کوئی زور نہیں ہوتا نا ہی اختیار . سوچنے کی بات یہ ہے کے وہ کیا چیز ہوتی ہے جو اک لڑکی کو اپنی سہیلیوں کے سامنے وہ بات کرنی سے نہیں رکتی اور ماں باپ کے سامنے زبان ہلانے پر متفق نہیں کرتی . . تو وہ چیز ہے دَر ، خوف . . جی ہاں ! دوستوں سے کوئی پردہ نہیں ہوتا ، کوئی دَر نہیں ہوتا . انسے خوف محسوس نہیں ہوتا جو ماں باپ سے محسوس ہوتا ہے .

یہاں ماں باپ کو چاہیئے کے اپنی اولاد کو اتنا اعتماد ضرور دین کے وہ کسی اور کو انسے زیادہ اہم نا سمجھے . پِھر اولاد کا فرض ہے کے اسے ماں باپ کے احسانات اور انکی محبت یاد رکھے تا کے ان سے زیادہ افضل کوئی نا لگے جس کے لیے وہ ماں باپ سے جھوٹ بولیں . مگر یہاں ایک حقیقت بھی ہے . کے عمر کا ایک دور اسا آتا ہے جو جزباتیات اور نادانی سے بھرپور ہوتا ہے . جس میں ایک لڑکی کو غیر معمولی توجہ ، باتوں کی مٹھاس ، اور لہجے کی شیرنی اپنی سمت کھینچتی ہے . یہ عمر کا وہ نازک دور ہے جہاں ماں باپ کو اولاد کا بہترین دوست بنا چاہیے عمر کے اِس دور میں اگر اولاد ماں باپ سے دور ہوئی تو یاد رکھیں گا کے یہ دوری لمحوں یا سالوں پر نہیں بلکہ ساری عمر پر محیط ہو کر رہ جائیگی پِھر فاصلے میں کمی نہیں آئیگی

 Education

Education

جس طرح تالی دو ہاتھوں سے نہیں بجتی ویسی ہی غلطی صرف والدین کی یا صرف اولاد کی نہیں ہوتی بلکہ دونوں طرف سے برابر ذمیدار ہوتے ہیں . والدین کو چاہیے کے وہ اپنی اولاد کو پاس بٹھا کر اس سے محبت سے بات کریں ، اسے اپنے پیار کا احساس کرائیں اپنے لفظوں سے ، اگر اولاد کا زیادہ وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر گزر رہا تو اسے زندگی کی مصروفیت دیں ، تعلیم ، دیگر کورسز میں اسے مصروف رکھیں تا کے وہ کسی چیز کو غلط طریقے سے نا استعمال کر سکے ، اسے احساس دلائیں اپنی توجہ سے کے آپکو اسکا کتنا خیال ہے ، اگر آپکو یہ بات پتہ ہوتی ہے کے آپکی بیٹی یا بیٹا کسی کو پسند کرتا ہے تو اِس موضوع پر ایک دوست کی طرح اس سے گفتگو کریں

یہ جاننے کی کوشش کریں کے وہ کس نظر سے سوچ رہا ہے ، اسکی سوچ سمجھنے کی کوشش کریں . اگر آپکی اولاد آپکی بہت فرمانبردار ہے تو اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کے آپ اپنا فیصلہ اس پر لادن ماں باپ تمام عمر اولاد کی پسند کو ترجیح دیتے ہیں ، پڑھنے میں ، پہننے میں ، کہیں آنے جانے میں ، جو اسکا دِل کرتا ہے وہ ویسی اپنی زندگی کے فیصلے کرتا ہے . گھر سے باہر ہَم ہر کسی سے کہتی ہیں کے میری بیٹی یا بیٹا اپنی مرضی سے زندگی گزارتا ہے ، اسے کسی طرح کی روک توک نہیں اسے مکمل آزادی ہے ، پِھر یہاں تک کے اولاد اپنا اچھا برا سوچنے کے قابل بھی ہوجاتا ہے . پر یہاں . . . اِس مقام پر آ کر ہم ایک دم
اس سے اسکی تمام آزادی چین لیتے ہیں

اسکی زندگی سب سے اہم اور بڑا فیصلہ ہم اسکی مرضی جانے بنا کر دیتے ہیں کے میری بیٹی کبھی میری بات نہیں تالای گی ، ٹھیک ہے ! مانا آپکی بیٹی آپکی بات رد نہیں کریگی ، پر کیا وہ خوش رہیگی . ؟ وہ آنے والے انسان کو اپنی زندگی میں تو جگہ دے گی پر دِل میں کبھی نہیں دے پایگی ، آپکی اولاد کا یہ ادھورہ پن آپکے لیے خوشی کا باعث ہو گا . ؟ میرا اپنا زاتی خیال ہے کے شادی کے معاملے میں مکمل اختیار اولاد کو ہونا چاہیے ، شَریعت نے بھی اِس بات کی اجازت دی اور معاشرے نے تو سوچ ہی یہ رکھی ہوئی ہے ، آج ہم خود دیکھتے ہیں زبردستی کی شادیون کے انجام . محبت کے بنا ایک انسان کب تک ایک بندھن میں بندھ کر رہ سکتا ہے . ؟

شادی احساس اور جذبات سے گندھا ایک پاک رشتہ ہے ، اپنی اولاد کو شادی کے نام پر عمر بھر کے سمجھوتے میں نا ڈالیں . . . تو . . اپنی اولاد کو ہمت دیں کے وہ اپنا نظریہ آپکے سامنے رکھ سکیں اسے حوصلہ دیں نا کے ڈراوا ، ان حالت میں آپکی لا تعلقی آپکی اولاد کو آپ سے جتنا دور کرتی ہے نا پِھر کوئی اور چیز کبھی اِس دوری کو نہیں مٹا سکتی . جب آپ انہیں اعتماد دینگے تو یقینا وہ بھی آ پکے بھروسے کا پاس رکھیںگی ، اللہ ہَم سب کو اپنے والدین کی عزتون کا آمین بنائے رکھے ، سب کو محفوظ رکھے امین

Halima Sadia

Halima Sadia