انتخابات ہوں یہ نہ ہوں ترکی لیبیا کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا: قالن

Ibrahim Qalan

Ibrahim Qalan

ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی صدارتی دفتر کے ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ ہم، لیبیا میں 24 دسمبر کو متوقع انتخابات کے ملتوی ہونے کی صورت میں بھی لیبیا کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے اور ہم تمام عالمی کرداروں سے بھی اسی روّیے کی توقع رکھتے ہیں۔

قالن نے اقتصادی و معاشرتی ریسرچ وقف SETA کے برسلز آفس میں ” لیبیا میں انتخابات سے پہلے کی غیر یقینی سیاسی صورتحال” کے زیرِ عنوان منعقدہ آن لائن پینل سے خطاب کیا۔

انہوں نے لیبیا کی زمینی سالمیت اور سیاسی اتحاد کی اہمیت پر زور دیا اور کہا ہے کہ خانہ جنگی کے خاتمے نے سیاسی استحکام اور جمہوری انتظامیہ کے قیام کی راہ ہموار کی ہے۔ اسی وجہ سے 24 دسمبر کو متوقع انتخابات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابات کے بارے میں سیاسی مشکلات موجود ہیں اور یہ فیصلہ کہ آیا انتخابات کروائے جائیں یا نہیں لیبیا کے فریقین خود کریں گے۔

قالن نے کہا ہے کہ لیبیا کے فریقین کا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو اس فیصلے کا تعلق خود لیبیا کے شہریوں سے ہونا چاہیے اور تمام بین الاقوامی کرداروں کو اس فیصلے کا احترام کرنا اور اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا ہے کہ یورپی ممالک اور امریکہ لیبیا کو “دہشت گردی، نقل مکانی اور توانائی” کے روزن سے دیکھتے ہیں اور یہ روزن انتہائی تنگ ہے۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو اس کا نقطہ نظر قطعاً مختلف ہے۔

قالن نے کہا ہے کہ ترکی نے لیبیا کے فوجی معاملات پر صرف لیبیا کے عوام، حکومت اور منتخب حکام کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں اور برلن اور پیرس کانفرنسوں نے ترکی کی لیبیا میں موجودگی پر ممنونیت کا اظہار کیا ہے۔ ہم ایک متحد لیبیا فورسز کے خواہش مند ہیں اور بحیثیت ترکی اس ہدف کے حصول کے لئے ہمیشہ لیبیا کی مدد کے لئے تیار ہیں۔ ہم لیبیا میں ترکی کے کردار کو، لیبیا حکومت کو تحفظ فراہم کرنے اور لیبیا فورسز کی تشکیل کے زیرِ مقصد، طے شدہ سمجھوتے کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ لیبیا میں ترکی کی کوششوں نے حالات و واقعات کی منفی بہاو کا رُخ موڑ دیا اور جھڑپ میں ایک توازن پیدا کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ انتخابات ملتوی ہونے کے امکان کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بالفرض اگر 24 دسمبر کو انتخاب نہیں بھی ہوتے تو بھی ترکی اقتصادی، سیاسی اور اور دیگر تمام شعبوں میں لیبیا کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور ہم بین الاقوامی برادری سے بھی اسی روّیے کی توقع رکھتے ہیں۔