عجیب مہمان

Raining Evening

Raining Evening

تحریر : اقبال زرقاش
شام کا وقت تھا اور گھنگور گھٹائیں کسی خیالی محبوبہ کی سیاہ زلفوں کی طرح پھیلتی جا رہی تھیں کہ دیکھتے دیکھتے اندھیرا چھا گیا اور کچھ دیر بعد شدید بارش شروع ہو گئی بجلی کی کڑ ک سنتے ہی میں بستر پر لیٹ گیا۔ اچانک باہر دروازے پر کسی نے دستک دی میں فورا بستر سے اٹھ کر دروازے کی جانب لپکا اور بجلی روشن کی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان جو کہ میرے لیئے قطعی اجنبی تھا بارش میں بھیگا ہوا میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا میں نے حیرانی سے پوچھا آپ کو کس سے ملنا ہے اس نے جواب دیا ہم اپنے گھر جارہے تھے کہ بارش ہو گئی۔

اگر آپ اجازت دیں تو بارش رکنے تک آپ کے ہاں ٹھہر جائیں۔ لفظ “ہم “پر میں چونکا کیونکہ بظاہر تو وہ اکیلا ہی دیکھائی دیتا تھا لیکن جب میں نے باہر جھانک کر دیکھا تو ایک محترمہ سیاہ برقعہ اوڑ ے کھڑی تھی جو کہ سر سے پاؤں تک بھیگی ہوئی تھیں میں نے فوراً اجنبی نوجوان سے اندر آنے کو کہا اور امی سے اجازت لے کر دونوں کو ڈرائنگ روم میں لے گیا ۔خاتون نے اپنا بھیگا ہو ا برقعہ ہینگر کے ساتھ لٹکا دیا ۔نہ جانے کیوں میری نظریں اس سراپا ء حسن کا جائزہ لینے لگی وہ میر ے سامنے کھڑی تھیں

بے حد خوبصورت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے اپنی تمام مصوری اس ایک ہی مجسمے پر ختم کر دی ہے اس کی نرگسی آنکھیں مے کے پیالوں کی طرح جھلک رہی تھیں اس کے معصو م چہرے کا تل اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ وہ شخص بھی کتنا خوش نصیب ہو گا جو ان گھنی زلفوں کی چھاؤں میں سماج کے ظلم و ستم سے بے نیاز دنیا کے تفکرات سے آزاد ہو کر پر سکون زندگی بسر کرے گا یا کر رہا ہو گا

میں اپنے انہی خیالات میں گم تھا کہ اجنبی نے میر ے خیالات کا سلسلہ توڑ دیا ” معاف کیجیے گا ہما ر ا آپس میں کو ئی تعارف نہیں ہو ا ” میں نے خیالات کی دنیا سے باہر نکل کر مختصر طور پر اپنے بارے میں بتایا ۔تو وہ بھی اپنا تعارف کرانے لگا ” مجھے پرویز کہتے ہیں اور ایک محکمہ میں انشورنس ایجنٹ ہو ں اور یہ میر ی بیگم ہیں”

Knock

Knock

اس دوران خاتون کی آنکھیں میز پر جمی رہیں جیسے وہ لفظ ” بیگم “پر شرما گئی ہو باتوں ہی باتوں میں بارش تیز ہو گئی جیسے گھنٹوں تک یہ سلسلہ یوں ہی رہے گا میں نے اخلا قی طور پر ان سے کہا۔ غریب خانہ اپنا ہی سمجھئے اطمینان سے ساتھ رات یہاں گزاریئے یہ بارش تھمنے والی نہیں وہ خاموش ہو گئے اور میں نے مناسب انتظام کر دیا اور خود دوسرے کمرے میں چلا گیا اس وقت را ت کے گیا رہ بجنے والے تھے میں بستر پر لیٹتے ہی سو گیا صبح آنکھ کھلتے ہی ڈرائنگ روم کا میں نے رخ کیا تاکہ مہمانو ں کا حال معلوم کر سکوں دروازے پر دستک دی کوئی جواب نہ ملنے پر جب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ خود بخود کھل گیا جو ں ہی میں اندر داخل ہواتو دیکھا کہ کمرہ خالی ہے شاید بارش رکتے ہی وہ وہاں سے چلے گئے ہوں گے

میں نے اس واقع کو کوئی اہمیت نہ دی اور انکی خاموشی سے چلے جانے کو ہی شرافت اور اعلی نسبی پر محمول کیا میں نے کپڑے پہنے اور گھر سے بازار کی طرف روانہ ہو گیا ابھی مشکل سے میں مارکیٹ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ میں نے دیکھا کہ روڈ پر ایک ٹیکسی اور ویگن کی ٹکر ہو گئی ہے معلو م کرنے پر پتا چلا کہ ٹیکسی میں ایک مرد اور ایک عورت سفر کر رہے تھے جس میں مرد موقع پر ہی جان بحق ہو گیا میں بھی مجمے کو چیرتا ہو ا غیر ارادی طور پر جائے واردات پہنچا ٹیکسی بالکل چکنا چور ہو گئی تھی اور زخمی ہونے والی خاتون کو دیکھ کر میں چونک گیا

کیونکہ یہ وہی عورت تھی جس نے آج کی رات میر ے ہا ں بسر کی تھی ہمدری کے طور پر میں نے اس سے چند سوالات کیئے تو معلوم ہو ا کہ وہ شخص جو رات کو اس کے ساتھ تھا اور وہ جو اب مر گیا ہے اس کا کچھ نہیں لگتا تھا یہ سب کچھ شب گزاری کے لیئے ڈھونگ رچایا گیا تھا ایک لمحے کے لیئے مجھ پر سکتہ عالم طاری ہو گیا فوراْ میں نے اپنے ہوش و حواس پر قابو پاتے ہو ئے اس سے کہا” کل تک میں تم کو شرافت کی دیوی سمجھتا تھا لیکن آج تم میر ی نظر میں ایک ذلیل عورت کے سوا کچھ بھی نہیں قدرت نے تم کو جس قدر حسین بنایا ہے اس سے کہیں ذیادہ تم گندی ذہنیت کی مالک ہو ” اس سے زیادہ میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا اور افسردہ سا واپس چلا گیا۔

Iqbal Zarqash

Iqbal Zarqash

تحریر : اقبال زرقاش