فٹبال ورلڈ کپ؛ برازیل میں چھڑنے والی جنگ میں پاکستانی ہتھیار استعمال ہوں گے

Brazil Foot Ball World Cup

Brazil Foot Ball World Cup

سیالکوٹ (جیوڈیسک) 12 جون کو برازیل میں دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹ بال کی عالمی جنگ چھڑنے والی ہے جس میں پاکستان تو میدان میں نہیں اترے گا لیکن اس سرزمین پر تیار ہونے والے فٹبال ضرور سبز ہلالی پرچم کی موجودگی کو نمایاں کریں گے۔

دنیا میں کھیلوں کے سامان کی سب سے بڑی برآمدی کمپنی ’’ایڈی ڈاس‘‘ نے آئندہ ماہ برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلد کپ میں کھیلوں کے سامان کی فراہمی کا ٹھیکا ملا ہے، اس سلسلے میں اس نے چین کی ایک کمپنی کو فٹ بال کی تیاری کی ذمہ داری سونپی لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ کمپنی مقررہ وقت پر مقررہ تعداد میں فٹ بال کی تیاری کا کام مکمل نہیں کرسکتی تھی، جس پر ’’ایڈی ڈاس‘‘ نے دنیا کے دیگر ملکوں میں موجود اداروں سے رابطے کئے۔

ایسے میں سيالکوٹ ميں قائم ایک فیکٹری کے مالک خواجہ اختر نے بھی فٹبال کے میگا ایونٹ میں شرکت کا خواب آنکھوں میں سجا کر ’’ایڈی ڈاس ‘‘ کے ايک وفد کو سيالکوٹ کے دورے کی دعوت دے ڈالی تاکہ وہ اپنی کمپنی کا معائنہ کروا کر ورلڈ کپ کے لئے فٹ بال تيار کرنے کا کنٹریکٹ حاصل کر سکیں۔

کمپنی کے نمائندے جب فیکٹری پہنچے تو حالات دیکھ کر انہیں یہاں آنا ہی بے مصرف لگا اور ملاقات بھی بے نتیجہ لگی، کمپنی کے اہلکار یہ کہہ کر چلے گئے کہ فيکٹری ميں ’پتھر کے زمانے‘ کا سامان نصب ہے، ایسے میں وہ بھلا عالمی معیار کے فٹبال کہاں سے تیار کریں گے۔ حسن عباس یہ موقعہ جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور فیکٹری کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ کرنے میں انہیں کم از کم 6 ماہ درکار تھے ایسے میں ایڈی ڈاس کمپنی نے انہیں 33 دن کی مہلت دی۔

پھر کیا تھا انہوں نے جذبے اور لگن سے وہ کر دکھایا جو کسی کے خیال میں بھی نہ تھا، دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد جب ایڈی ڈاس کا وفد دوبارہ فیکٹری آیا تو جدیدی ترین ساز و سامان دیکھ کر ناصرف مطمئن ہوا بلکہ فٹ بال کی تیاری کا آرڈر بھی دے دیا۔

حسن عباس کا کہنا ہے کہ فٹ بال کے اس عالمی میلے میں 3 ہزار فٹبال استعمال ہوں گے جن میں اکثریت ’’میڈ ان پاکستان‘‘ ہو گی۔ اس کے علاوہ فٹبال کے بخار میں مبتلا دنیا بھر کے دیوانوں کے لئے مختلف معیار کے 20 لاکھ فٹبال تیار کرنے کا بھی ہدف مقرر کیا ہے۔

واضح رہے کہ 1990 کے عشرے تک دنیا بھر میں استعمال ہونے والے 80 فی صد فٹ بال پاکستان سے برآمد شدہ ہوتے تھے لیکن گذشتہ عشرے میں ان کی تعداد کم ہو کر صرف 18 فی صد رہ گئی ہے۔