حقوق پر ڈاکہ ڈالنا سنگین جرم، عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جائے: نواز شریف

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والی اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔

اے پی سی میں سابق صدر آصف زرداری نے ابتدائی نوٹ سے خطاب کرتے ہوئے سارے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت کے لیے دعا کرنے کے ساتھ کہا کہ میرے خیال میں یہ اے پی سی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا جب سے ہم سیاست میں ہیں میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں نہیں دیکھیں، چاہے کتنی ہی پابندیاں لگائی جائیں، لوگ ہمیں سن رہے ہیں، حکومت اے پی سی کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے یہی ہماری کامیابی ہے۔

سابق صدر نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور پھر ہم آہنگی کے ذریعے مشرف کو بھیجا، 18 ویں ترمیم کے گرد ایک دیوار ہے جس سے کوئی بھی آئین کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ بہروپیوں سے پاکستان کو بچانا ہے، سیاسی بونے، سلیکٹڈ پرائم منسٹر کی سوچ ہے کہ 73 کا آئین بنانے والوں سے وہ زیادہ ہوشیار ہیں، اس اے پی سی میں ایسا لائحہ عمل دیں کہ جمہوریت مضبوط کر سکیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ ہم صرف اس حکومت کو نکالنے نہیں آئے بلکہ اس حکومت کو نکال کر اور جمہوریت بحال کر کے رہیں گے، ہم نے پاکستان بچانا ہے اور ہم ضرور جیتیں گے۔

نواز شریف کا اے پی سی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں وطن سے دور ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں، ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مصلحت چھوڑ کر فیصلے کریں۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟

انہوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی،کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟

ان کا کہنا تھا کہ ووٹ سے بنا وزیراعظم کوئی قتل، کوئی پھانسی اور کوئی غدار قرار دیا گیا، منتخب وزیراعظم کی سزا ختم ہونے کو آہی نہیں رہی، یہ سزا عوام کو مل رہی ہے۔

قائد مسلم لیگ ن نے کہا کہ یہاں مارشل لاء ہوتا ہے یا متوازی حکومت قائم ہو جاتی ہے، یوسف رضا گیلانی نے ایک بار کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، لیکن معاملہ ریاست کے اندر سے نکل کر ریاست کے اوپر چلا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے، نتائج تبدیل نا کیے جاتے تو بے ساکھی پر کھڑی یہ حکومت وجود میں نہ آتی، انتخابات ہائی جیک کرنا آئین شکنی ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے۔

نواز شریف نے سوال کیا کہ 2018 کے عام انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رہا؟ انتخابات میں دھاندلی کس کے کہنے پر کی گئی؟ اس کا سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری کو جواب دینا ہو گا، جو دھاندلی کے ذمہ دار ہیں انہیں حساب دینا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نااہل حکومت نے پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دینے والوں نے لوگوں کا روزگار چھین لیا، سی پیک کنفوژن کا شکار ہے، کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نا ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے، ہم کبھی ایف اے ٹی ایف کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں، ایک غیر مقبول کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا، کیوں آج دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں؟ کیوں ہم تنہائی کا شکار ہیں؟

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیانات دیے جس سے سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، ہمیں او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔

نیب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ نیب کے کردار کا جائزہ لینا ضروری ہے، یہ بات سچ ہے کہ نیب قوانین کو ختم نہ کرنا ہماری غلطی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ ادارہ انتقام کا آلہ کار بن جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال عہدے کا نازیبا استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے لیکن ایکشن نہیں ہوتا، یہ شخص ڈھٹائی سے عہدے پر براجمان ہے، بہت جلد سب کا یوم حساب آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیب اپنا جواز کھو چکا ہے، صرف اپوزیشن اس کا نشانہ بنی ہوئی ہے، جو نیب سے بچتا ہے اسے ایف آئی آے کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جو ایف آئی اے سے بچ جاتا ہے اسے اینٹی نارکوٹکس پکڑ لیتی ہے اور جو وہاں سے بچ جائے اسے کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

سابق وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں عمران خان کی ذات ملوث ہے، کیا نیب اسے گرفتار نہیں کرے گا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا نیب علیمہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کرے گا؟ بنی گالہ گھر غیر قانونی تعمیر کیا گیا، کیا اس کی فائل ایسے ہی بند رہے گی؟

ان کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن غیر ملکی فنڈنگ پر فیصلہ نہیں کرے گا؟ کیا ان سب پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا؟

نواز شریف نے کہا کہ بنی گالہ کی اتنی بڑی جائیداد کیسے بنی؟ کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی؟ عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ کیا کوئی پوچھے گا؟

انہوں نے کہا کہ اے پی سی روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کیلئے اقدامات تجویز کرے، آج ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم قومی مفاد کی خاطر ایک ہیں، اگر ہم نے روایت سے ہٹ کر پختہ فیصلے کیے تو یہ کانفرنس کامیاب ہو گی۔

عوام کو اس مصیبت، عذاب سے نجات دلا کر رہیں گے: چیئرمین پیپلز پارٹی
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جمہوریت نہیں ہے تو عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حکومت کو، اور ان کو لانے والوں کو سڑکوں پر للکارنا ہے، ہمیں ان لوگوں کو سمجھانا پڑے گا کہ ملک کے عوام کو آزادی دو، ہمیں الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ عوام حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کریں، اس کے لیے ایک نیا میثاق جمہوریت کرنا ہو گا، دیہات میں سب کو نکلنا پڑے گا، ہم سب کو عوام کے دروازے تک جانا پڑے گا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں ان لوگوں کو صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی، سینیٹ میں للکارنا ہو گا، عوام کو اس مصیبت، عذاب سے نجات دلا کر رہیں گے۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا اے پی سے خطاب میں کہنا تھا کہ یہ بات غلط نہیں ہو گی کہ ملک میں جمہوریت برائے نام ہے، آج منہگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، کورونا آنے سے قبل معیشت کو ضرب لگ چکی تھی۔

شہباز شریف نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ آر ٹی ایس بند ہوا اس کی تحقیقات ہوں گی، اس پر ایوان کی کمیٹی قائم کی گئی لیکن دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی نے ایک انچ سفر نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیلاب نے تباہی مچائی اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو توفیق نا ہوئی کہ لوگوں کی امداد کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر اندھا انتقام ہو رہا ہے، ان کو احتساب کرنا ہوتا تو سب سے پہلے کابینہ میں بیٹھے لوگوں کا کرتے۔

صدر مسلم لیگ ن نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اے پی سی پر ہیں کہ ہم کیا فیصلے کرتے ہیں، ریاست مدینہ کا نام لینے سے ڈرنا چاہیے، اس پاک نام کو سیاست میں نہیں لینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر لحاظ سے بری طرح ناکام ہو چکی ہے، حکومت کا احتساب نہ کیا اور خاموشی اختیار کی تویہ جرم بن جائے گا اور ہم اس کا حصہ بن جائیں گے۔

کُل جماعتی کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور مریم نواز سمیت دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے کے لیے پارٹی قائدین سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کُل جماعتی کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز پیش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی تجویز بھی پیش کی جائےگی۔

دوسری جانب وزیراعلی پنجاب کو بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی تجویز دی جائے گی، تجاویز پر فیصلہ اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ نوازشریف کا اے پی سی سےخطاب سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے دکھانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس پر حکومت نے شدید رد عمل دیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف نے اے پی سی سے خطاب کیا اور ان کا خطاب نشر ہوا تو پیمرا اور دیگر قانونی آپشن استعمال ہوں گے۔

شہباز گل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مفرور مجرم سیاسی ایکٹیوٹیز کرے اور بھاشن دے-

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بول سکتا، یہ اتنے جھوٹے ہیں کہ بیماری پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔

دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے بھی کہا ہے کہ پیمرا قوانین میں موجود ہے کہ کوئی بھی مجرم یا مفرور ٹی وی خطاب نہیں کر سکتا۔