جرمن صدر کا دنیا کو پیغام: ‘آپ ہم پر اعتماد کر سکتے ہیں‘

Frank-Walter Steinmeier

Frank-Walter Steinmeier

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، دنیا جرمنی پر بھروسہ کر سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، دنیا جرمنی پر بھروسہ کر سکتی ہے۔ تقریباً چار دہائیوں میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے وہ پہلے جرمن سربراہ مملکت ہیں۔

جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جمعے کے روز اقو ام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا۔

اشٹائن مائر نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اراکین کو اس بات کے حوالے سے مطمئن رہنا چاہيے کہ بدلتی ہوئی دنیا میں جرمنی اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا، ”جرمن آئین کی تمہید میں مختصر اور جامع الفاظ میں کہا گیا ہے، ‘متحدہ یورپ کے ایک مساوی رکن کے طور پر دنیا میں امن کے لیے خدمت کی جائے۔‘ انہوں نے کہا، ”یہ وعدہ اور یہ ذمہ داری ہر ایک جرمن حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وفاقی صدر کے طور پر بین الاقوامی برادری کو یہ اہم پیغام دینے کے لیے جرمنی سے نیو یارک آیا ہوں کہ ہمارے شرکاء ہم پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔”

اتوار کے روز جرمنی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور چانسلر انگیلا میرکل اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والی ہیں۔

جرمن صدر نے کہا کہ گزشتہ صدی کے دوران جو سبق سیکھا گيا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات کے نتائج سے جرمن خارجہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ”انتخابات کے بعد بھی جرمنی ویسا ہی رہے گا اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول اور پورا کرتا رہے گا۔”

فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا، ”اس کے دو اسباب ہیں، پہلا سبب یہ کہ ہم جرمن کبھی بھولتے نہیں، دو عالمی جنگوں کے بعد نیا سیاسی اور اقتصادی آغاز، میرے ملک کی جو بدقسمتی رہی ہے اس سے نکل کر بین الاقوامی برداری میں بڑھتی ہوئی شمولیت اور بالآخر پرامن اتحاد۔ جرمنی کے لیے یہ خوشگوار راستہ صرف ہمارے پڑوسیوں اور شرکاء کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔”

جرمن صدر نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی مغرب کی سیاسی ناکامی کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور جمہوری ملکوں کو اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی اپنی کوششیں ترک نہیں کرنی چاہييں۔

جرمن صدر نے کہا، ”میں سمجھتا ہوں کہ خود کو اس سے الگ کر لینا غلط ہوگا۔ میرے خیال میں موجودہ حالات میں ہماری خارجہ پالیسی کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ ایماندار، اسمارٹ تو ہونا ہی چاہيے ساتھ میں مضبوط بھی ہونا چاہيے۔”

جرمن صدر نے کہا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹوا فواج کی واپسی پر کسی کو اِترانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہماری ناکامی سے کسی کو اِترانا نہیں چاہيے۔ میں اس کے لیے یہاں ایک جرمن لفظ Schadenfreude استعمال کرنا چاہتا ہوں جو کئی دیگر زبانوں میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے، ‘دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونے کی مذموم خصلت۔‘ ہم اس طرح کی سوچ کے ساتھ ایک دوسرے سے مربوط دنیا کے حقائق سے انصاف نہیں کر سکتے۔”

انہوں نے کہا، ”علاقائی عدم استحکام، پناہ گزینوں اور مہاجرین کا سیلاب، مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی، تصادم کی نئی شکلیں ہیں۔ ہائبرڈ، ڈیجیٹل، ماحولیاتی اور وسائل کے تصادم بھی ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہم سب کے لیے خطرہ ہیں اور ہم سب کو مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔”

جرمن صدر نے ماحولیات، کووڈ انیس کی وبا اور دیگر امور پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

فرانک والٹر اشٹائن مائر سے قبل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے واحد جرمن صدر کارل کارسٹین تھے جنہوں نے 1983میں اس عالمی ادارے سے خطاب کیا تھا۔ اشٹائن مائر مارچ 2017 سے جرمن صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ماضی میں جرمنی کے وزیر خارجہ کے طور پر جنرل اسمبلی سے خطاب کر چکے ہیں۔