جرمن فوج کی مدد کرنے والے پناہ کے متلاشی افغان جرمنی پہنچ گئے

German Army

German Army

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں جرمن فوج کی معاونت کرنے والے افغانوں کا پہلا گروپ پناہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی پہنچ گیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان انہیں ”غدار” سمجھتے ہیں اس لیے انہیں وہاں اپنی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

جرمن ہفت روزہ اخبار ڈیر شپیگل نے پیر کے روز بتایا کہ چھ افراد پر مشتمل افغانوں کا وہ پہلا گروپ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ جرمنی پہنچ گیا ہے، جو افغانستان میں جرمن فوج کے قیام کے دوران اس کے لیے کام کرتے تھے۔

افغانستان سے اس پہلے گروپ کی آمد کے ساتھ ہی ان افغان شہریوں کو پناہ دینے کے پروگرام کا آغاز ہوگیا جنہوں نے جرمن فوج کی معاونت کی تھی اور اب جب کہ ملک کے بیشتر حصوں پر طالبان کا کنٹرول ہوگیا ہے، یہ افراد اپنی زندگی کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

مجموعی طورپر 23 افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں، ٹرکش ایئرلائنز کے ایک طیارے کے ذریعہ افغانستان کے مزار شریف شہر سے جرمنی پہنچے۔ ڈیرشپیگل کے مطابق 30 افراد پر مشتمل ایک اور گروپ چند دنوں میں جرمنی پہنچے گا۔

جرمن فوج کے حکام نے جون کے اواخر میں افغانستان چھوڑنے سے کچھ پہلے 471 مقامی ورکرز مثلاً مترجمین وغیرہ کے دستاویزات تیار کردیے تھے۔ ان کے کنبے کے افراد کے لیے مزید 2380 ویزا کے دستاویزات بھی تیار ہیں۔

افغانستان پر فوجی کارروائی کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کردینے کے تقریباً بیس برس بعد اب امریکی اور اتحادی افواج گیارہ ستمبر سے پہلے پہلے اپنی فوج کا انخلاء مکمل کرلینا چاہتی ہیں۔

جن مقامی لوگوں نے قابض فورسز کے لیے اس دوران کام کیا تھا، طالبان انہیں ”غدار” قرار دیتے ہیں۔

بین الاقوامی فورسز کی افغانستان سے واپسی کے ساتھ ہی اسلام پسند عسکریت پسندوں نے ملک کے مختلف حصوں پر بڑی تیزی سے قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے بہت سارے اضلاع کو افغان سرکاری فورسیز سے چھین لیا ہے۔ ایسے میں غیر ملکی فورسیز کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری خوف زدہ ہیں اور انہیں اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہورہا ہے۔

جرمن حکومت نے اہم افغان کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اپنے پروگرام کو وسعت دے دی ہے۔ اب اس پروگرام میں ان تمام افغان شہریوں کو شامل کرلیا گیا ہے جو سن 2013 سے ہی جرمن فوج یا دیگر جرمن تنظیموں کے لیے کام کررہے تھے۔ ابتدا میں صرف ان افغانوں کو اس پروگرام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو گزشتہ دو برسوں سے جرمن فوج کے لیے کام کررہے ہیں۔

تاہم ویزا کے بہت زیادہ پیچیدہ عمل کے لیے جرمن حکومت کو نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ڈیر شپیگل کے مطابق بعض جرمن وزیروں کو ویزا کے عمل کو سہل بنانے پر اعتراض ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے ”سکشن ایفیکٹ” پیدا ہوسکتا ہے۔

جرمن فوج افغانستان سے اپنی بیئر بھی واپس لائے گیجرمن فوج کی مدد کرنے والے افغانوں کے لیے خوش خبری

جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلاء اور مزار شریف میں قونصل خانہ بند ہوجانے کی وجہ سے ویزا کا عمل پیچیدہ ہوگیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ جرمنی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم جیسے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔

جرمن وزارت دفاع کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ صرف چند لوگوں کی ہی ویزا درخواستیں ابھی اس لیے منظور کی گئی ہیں کیونکہ ”جن تمام لوگوں کو سفری دستاویزات مل چکے ہیں وہ فوراً ملک چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔”

افغانوں کو جرمنی میں پناہ دینے کی نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے جرمن فوج کے لیے براہ راست کام کرنے کے بجائے صرف فوجی اڈوں کو اپنی خدمات دی ہیں وہ پناہ دینے کے پروگرام میں شامل کیے جانے کے اہل نہیں ہیں۔