جرمن صوبے تھیورنگیا کے الیکشن: میرکل حکومت کے لیے بڑا دھچکا

Angela Merkel

Angela Merkel

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن صوبے تھیورنگیا میں اتوار ستائیس اکتوبر کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج سے برلن میں چانسلر میرکل کی قیادت میں وسیع تر مخلوط حکومت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ میرکل کی پارٹی کی حمایت میں گیارہ فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔

جرمنی کے مشرقی صوبے تھیورنگیا کی ریاستی پارلیمان کے انتخابات کے نتائج برلن میں وفاقی مخلوط حکومت میں شامل ملک کے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو حاصل عوامی تائید میں اس قدر کمی دیکھی گئی کہ میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رہنما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟

سی ڈی یو کو اس الیکشن میں صرف 22 فیصد ووٹ ملے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسی ریاست میں گزشتہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے مقابلے میں اس کو حاصل تائید میں 11 فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔

اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ حقیقت کا سامنا سوشل ڈیموکریٹس کی پارٹی ایس پی ڈی کو کرنا پڑا، جس کو حاصل عوامی تائید میں 2014ء کے گزشتہ ریاستی الیکشن کے نتائج کے مقابلے میں ایک تہائی کمی دیکھی گئی۔ ایس پی ڈی کو کل اتوار ستائیس اکتوبر کو ہونے والے الیکشن میں صرف تقریباﹰ آٹھ فیصد ووٹ ملے۔

برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں قائم وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے لیے یہ نتائج اس لیے بہت بڑا دھچکا ہیں کہ سی ڈی یو اور ایس پی ڈی مل کر بھی کل ڈالے گئے ووٹوں کا ایک تہائی بھی حاصل نہ کر سکیں۔ یہ اس صوبے کے ایسے انتخابی نتائج ہیں، جن کی جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر آج تک کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

ان انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد برلن میں سی ڈی یو کے سیکرٹری جنرل پاؤل سیمیاک نے کہا، ”آج کا دن کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے لیے ایک بڑا ہی تلخ دن ہے۔‘‘ اسی طرح کی ناامیدی کا اظہار سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی قائم مقام خاتون سربراہ مالُو درائر نے بھی کیا۔

ان نتائج کے بعد سی ڈی یو کا لائحہ عمل کیا ہو گا، اس پر میرکل کی پارٹی کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔ لیکن ایس پی ڈی کو آئندہ کیا فیصلے کرنا ہوں گے، یہ پارٹی تو ابھی اس بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی اگلی سربراہ کون سی شخصیت ہو گی، یہ فیصلہ تو تیس نومبر کو کیا جائے گا۔

ماضی میں مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کا حصہ رہنے والے اور اب متحدہ جرمنی کے مشرقی صوبوں میں سے ایک تھیورنگیا کے ان انتخابات میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ‘دی لِنکے‘ کو تاریخ ساز کامیابی حاصل ہوئی۔ غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق ‘دی لِنکے‘ کو 31 فیصد ووٹ ملے اور وہ نئی پارلیمان میں نمائندگی کی حامل سب سے بڑی جماعت ہو گی۔

اتوار ستائیس اکتوبر کے انہی صوبائی انتخابات کے نتائج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جرمنی میں اسلام کی مخالفت اور تارکین وطن کی آمد پر شدید تنقید کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ‘متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو بھی اتنے زیادہ ووٹ ملے کہ اس نے چانسلر میرکل کی قدامت پسند پارٹی سی ڈی یو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
یوں بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی دونوں جماعتوں ‘دی لِنکے‘ اور اے ایف ڈی کو حاصل ہونے والی تائید کو دیکھا جائے تو ان دونوں پارٹیوں کو مشترکہ طور پر تقریباﹰ 55 فیصد ووٹ ملے۔

اس کے علاوہ اے ایف ڈی کو تو 2014ء کے الیکشن کے مقابلے میں تقریباﹰ 13 فیصد زیادہ تائید حاصل ہوئی۔

نو منتخب پارلیمان میں نشستوں کی آئندہ تقسیم کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی یقینی ہے کہ تھیورنگیا میں نئی صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ حق تو ‘دی لِنکے‘ ہی کا بنتا ہے لیکن اس کے لیے بھی حکومت سازی ایک بہت مشکل اور صبر آزما عمل ثابت ہو گا۔

ایرفُرٹ میں تھیورنگیا کی نئی صوبائی حکومت ہر حال میں ایک مخلوط حکومت ہو گی۔