ڈنگ ٹپائو طرز حکمرانی اور تعلیم کی صورتحال

Education

Education

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
حکمرانوں کی منہ زبانی اور سرکاری کاغذوں میں گو کہ ملک اس وقت اپنی تبدیلی کی حتمی منشاء لئے آگے بڑھ رہا ہے اور ٹیلی ویژن چینلز پرآنے والے حکمرانوں کے روایتی خیالات جان کر یونہی محسوس ہوتا ہے کہ واقعی حکومت ملک کو درپیش ہر مسئلہ اور دہشت گردی جیسے عفریت سے نجات کیلئے سنجید ہ ہے مگر حقیقت میں ایسا کچھ ہونے والا نہیں کیونکہ اس ملک کے اصل مسائل اور ہیں جن کے خاتمہ کی جانب اب بھی ارباب اقتدار و اختیار توجہ دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتے اور پاکستانی عوام کے اکثریتی رویوں سیاست وخوشامد پرستی کیو جہ سے میرے نزدیک کچھ بھی بہتری آنے کیلئے ہزاروں سال بھی کم ہیں حالات دن بدن گھمبیر سے گھمبیر ہی ہوں گے بہتر ی کم ہی متوقع ہے۔

ملک کے مسائل مختلف طبقات کی واضح تفریقسے جنم لے رہے ہیںاور سب سے پہلے سرکاری سطح سے ہی اس تفرقہ بازی کو پروموٹ کیا جاتا ہے ملک میںدو طبقات کا واضح سسٹم پروان چڑھایا جارہا ہے ایک طبقہ ماورائے قوانین واخلاقیات ہر طرح کی سہولتوں سے استفادہ حاصل کررہا ہے ۔شاہانہ طرز زندگی،بہترین معیار تعلیم، صحت وتفریح اور روزگارکی بہترین سہولتیں اس طبقہ کو تمام تر ملکی وسائل واختیارات کا مالک ومختار بنایا جارہا ہے۔ دوسری جانب درمیانہ وغریب طبقہ ۔ بنیادی قوانین کی یکسر پامالی کرتے ہوئے شہریوں کیساتھ ہر سطح پر دوہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔

ملک کے ایک نمبر مسئلہ صرف تعلیم کے میدان کی ہی بات کریں توغریب کے بچے کیلئے تعلیمی معیارآج بھی اس قدر تھرڈ کلاس کہ اسے جدت کے اس دور میں بھی ٹھنڈے فرش پر بغیر سایہ جگہوں پر بیٹھنا پڑتا ہے،دیگر سہولتوں لائبریری، لیبارٹریوں ،پلے گرائونڈز کا بھی سرے سے کوئی وجود نہیں۔

روایتی اساتذہ بیچارے اپنے دستیاب علم کے مطابق بچوں کو رٹارٹانے میں کوشاں رہتے ہیں بچوں کے ذہنی معیار کو سمجھنا اور اس کے مطابق ان کیساتھ ڈیل کرناہمارے سکولوں اور ہمارے نظام تعلیم میں اس کیلئے کہیں کوئی گنجائش نہیں۔ نظام تعلیم ایسا ہے کہ کنویں کے مینڈک والا حساب ہے اس سے باہر ہم آنہیں سکتے اس لئے ترقی کی راہ پر جا نہیں سکتے۔کنویں کے مینڈک کی مثال کچھ یوں ہے ”ایک مرتبہ ایک مچھلی طوفانی ریلے میں بہہ کر قریب کے گاؤں کے ایک کنویں میں جا گری وہاں اس کی ملاقات ایک کنویں کے مینڈک سے ہو گئی ،کنواں اگر چہ کافی بڑا تھا مگر سمندر کی وسعتوں کے آگے اس کی کیا حیثیت تھی ،مچھلی کچھ دن اس کنویں میں رہی تو اس کا دم گھٹنے لگا ،اس نے مینڈک سے پوچھا تمہا را اس تنگ ماحول میں دم نہیں گھٹتا؟میں تو جہاں رہتی ہوں وہ اس سے بہت بڑا ہے۔مینڈک نے کنویں میں ایک چھوٹا سے چکر لگایااور بولا کیا جہاں تم رہتی ہو وہ اس سے بڑا ہے؟مچھلی بولی ارے نہیں بھائی وہ اس سے بہت بڑا ہے۔۔ ! مینڈک نے کہا اچھا اس نے اس سے بڑا چکر لگایا اور پوچھا کہ اس سے بھی بڑا ہے ، مچھلی بولی وہ بہت بڑا ہے، اس کو سمندر کہتے ہیں،تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ، مینڈک نے کہا اچھا۔

اس نے ایک اور بڑا چکر لگایا اور تھکا ہوا مچھلی کے پاس آیا کہ اس سے بھی بڑا مچھلی نے کہا ہاں، مینڈک نے اس سے بھی بڑا چکر لگایا اور پوچھا کہ اب بتاؤ، مچھلی سر پٹا کر بولی سمند ر تمہاری سوچ اور اندازے سے بھی بڑا ہے اس کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے اس میں کیسی کیسی مخلوق رہتی ہے تمہیں نہیں پتہ۔ اس میں لاکھوں کروڑوں بڑی بڑی مچھلیاںاور دیگر آبی جانور رہتے ہیں اس کے اوپردیو ہیکلجہاز ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے آتے جاتے ہیں،یہ ہزاروں میل تک پھیلا ہوتا ہے۔مچھلی نے اپنی بات ختم کی تو مینڈک نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور بولامیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سمندر اس کنویں سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا۔

Poverty

Poverty

ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں وہ کنویں کے مینڈک کی طرح چھلانگیں لگا لگا کر اپنی ناکام پالیسیوں کو بہت بڑا معرکہ قرار دیتے ہیں لاکھوں،کروڑوں روپیہ خزانہ سرکار سے ان بے مقصد معرکوں کی تشہیر پر صرف کردیتے ہیں، ان کا کیا جاتا ہے ان کے بچے کونسا اس ملک میںپلتے اور پڑھتے ہیں۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ کروڑوں بچے آج بھی سکولوں میں داخل نہیں ہیں سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی بھی بڑی تعداد پرائمری اور مڈل کے درمیان سکولوں سے کنارا کشی اختیار کرلیتی ہے کہیں غربت تو کہیں سکولوں کے ماحول سے گھبرا کر بچے تعلیم کے میدان سے دور ہوجاتے ہیں۔سینکڑوں ہزاروں سکول آج بھی ایسے ہیں جن کا زمین پر کہیں کوئی وجود نہیں مگر وہ بھی حکومتی ترقی کی طرح کاغذوں میں زندہ جاوید ہیں ۔روپ بدل بدل کرآنے والی حکو متیں تعلیم کیساتھ گھنائونا مذاق کرتے ہوئے اصل خامیاں دور کرنے کی بجائے نت نئے تجربوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وقت گزاری کرتیں اور اپنی آئی پر چلی بنتی ہیں جدید نظام تعلیم کے نام پر نصاب اور امتحانات کے طریقہ کار کی تبدیلی کو اصلاحات کا نام دیکر پہلے سے بھی زیادہ نظام کا بیڑہ غرق کردیا جاتا ہے غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے سرکاری سکولوں سے غریب کے پلے کچھ نہیں پڑتا ٹیوشنوں اور داخلوں کی بھاری فیسیں ۔ یہ بدترین صورتحال کون سے خوشحال پاکستان کی ضامن بنے گی؟۔ملک میں دوہرا تہرا معیار تعلیم رائج ہے ایک طرف اشرافیہ اور دولت مندوں کے بچے او لیول ،اے لیول اور دیگر پرائیوٹ انگلش سسٹم سکولوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

برسراقتدار اور اس ملک کے خادموں کی اولادیں مغربی ممالک کے سکولز، کالجزاور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیںجبکہ غریبوں کے بچوں کیلئے وہی سکول اور وہی روایتی اساتذہ بیچارے۔۔! غریب کے بچے کو سردی گرمی کے سخت موسموں میں دوردراز کے سکولوں ، کالجوں تک پہنچنے کیلئے آج بھی بسوں پر لٹک کر چھتوں پر سوار ہوئے جان ہتھیلی پر رکھ کر جانا پڑتا ہے۔یہاں سے رٹے لگا کر کامیاب ہونے والا شخص جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو بمطابق الفاظ کہیںبھی کامیابی اس کے قدم نہیں چومتی بلکہ ہر جگہ ناکامی اور مایوسیاں اسے سلامی دیتی ہیں، بالآخر جرائم پیشہ گروہوں میں شمولیت یا حالات سے گھبرا کر خودکشی یا پھر وہی باپ دادا کی سیٹ سپاہی کا بیٹا آج کے سفارش اور نام نہاد میرٹ زدہ دور میںبمشکل سپاہی، کلرک کا بیٹا کلرک ، چوکیدار کا بیٹا چوکیدار غلامی اور محکومی کی زندگی بسر کرتا اور اسی طرح جدی پشتی نظام کا کوئی وارث اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے زندگی کے قیمتی ترین10/20سال تو بہتری کی آس پر گزر جاتے ہیں پھر عمر گزر جاتی ہے اور شادی کے بعد بال بچوں کے جھنجھٹ میں ساری امنگیں امیدیں دم توڑ جاتی ہیں اور غریب کا بچہ اسی نظام کے تحت چوکیدار، کلرک، سپاہی ریٹائرڈ ہو کر اگلے جہاں کے امیدواروں میں شامل ہوجاتا ہے گزشتہ5,6دہائیوں سے زائد کے عرصہ میں غریبوں کیساتھ یہی ہورہا ہے قدرت کسی پر بڑی مہربان ہو تو الگ بات ہے ۔ باقی رہی بات دہشت گردوں کی تو جناب قوم کو کسی ایک فرقے گروہ کی دہشت کا سامنا نہیں۔ مہنگائی، ناانصافی، غربت، اقربا پروری،بے روزگاری جیسے اموربھی ان کیلئے دہشت گردوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں تو کہیں ظالمان، غیر ملکی ایجنسیوں کے ریمنڈ ڈیوس نما ایجنٹوں کے علاوہ ریاستی اداروں سے بھی عام آدمی ہی خوفزدہ ہے اور عام آدمیکیلئے تو برسراقتدار طبقات کا پروٹوکول بھی دہشت سے کچھ کم سامان پیدا نہیں کرتا ۔ اس بارے میں بھی کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے قوم توہر طرح کی دہشت گردی سے نجات کی متقاضی ہے ۔ڈنگ ٹپائو طرز حکمرانی کا سلسلہ ترک کر کے سب سے پہلے تو تعلیم کے مسئلہ کی جانب ہی توجہ دی جائے کہ میرے جیسے لاکھوں نوجوان سہولتوں اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتے آپ کا قوم پر بڑا احسان ہوگا جوملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کیساتھ قوم کے بچوں کیلئے تعلیمی میدان میں دیگرسہولتیں پیدا کردیں کہ جب تک ملک میں حقیقی طور پر تعلیمی انقلاب نہیں آتا تمام مسائل اپنی جگہ پر ہی رہیں گے۔

Aqeel Lodhi

Aqeel Lodhi

تحریر : عقیل احمد خان لودھی