امن و امان کی صورت ِ حال اور حکومت

Government

Government

OOO خبر ایسی کہ اس نے امن و امان کی صورت ِ حال اور حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ یہ واقعہ ان حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کررہا ہے جس سے ہمارے حکام ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، درجنوں خفیہ ایجنسیاں اور حکومتی عہدیدار ایک عرصہ سے صرف نظر کررہے ہیں شاید ان کا خیال ہو کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرنے سے بلی کی نظروں سے چھپا جا سکتاہے۔ خبر یہ ہے کہ ننکانہ صاحب سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رانا جمیل حسن المعروف گڈخان کو دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر روکا اور اہلیہ سمیت اغواء کرلیا بعد ازاںان کی اہلیہ کو چار گھنٹے بعدرہا کردیا۔

اور اپنے آپ کو طالبان کا ساتھی قرار دینے والوںنے رانا جمیل حسن المعروف گڈخان کی رہائی کیلئے 5 کروڑ تاوان کا مطالبہ کیا ہے اس واقعہ کا سب سے بڑا پہلو نامعلوم ملزمان کی دیدہ دلیری ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے یہ ان کی طاقت، نیٹ ورک اور کامیاب منصوبہ بندی کا مظہرہے ملک میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے کراچی ، پشاور کے بعد پنجاب کے بڑے شہر بھی اس کی زد میں ہیں کہا جارہاہے کہ اغواء برائے تاوان نے باقاعدہ دھندے کی شکل اختیار کرلی ہے۔

اب تلک مالدار لوگوں کے ساتھ ساتھ کئی وزیر، مشیر بھی اغواء ہو چکے ہیں جنہیں بھاری تاوان دے کر بازیاب کروایا گیا گذشتہ سال لاہور، کراچی، ملتان، اسلام آباد ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی 16 بڑی کاروباری شخصیات کو کروڑوں تاوان دیکر رہا کروانے کی اطلاعات ہیں ان کے لواحقین نے FIR تک درج نہیں کروائی اور حکومت بھی ان کیلئے کچھ نہیں کرسکی۔ سابق وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے ابھی تک بازیاب نہیں کروائے جا سکے۔ حالات وواقعات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اغواء برائے تاوان ایک منظم کاروباربن چکاہے۔

اس سلسلے کو 5مراحل میں پایہ ٔ تکمیل تک پہچایا جاتاہے اغواء کیلئے مخبری۔ کڈنیپنگ، محفوظ جگہ تک رسائی،قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچائو اور تاوان وصول کرنا ان سب کاموں کیلئے بڑے سائیٹیفک طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کسی بھی شخص کو صرف اغواء کر کے 2 سے 4 لاکھ کے عوض اگلی پارٹی کو منتقل کر دیا جاتاہے شنیدہے اس وقت مختلف شہروں میں 20 سے زائد اغوا کارگروہ موجود ہیں کئی یرغمالیوں کی باقاعدہ نیلامی بھی کی جاتی ہے یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ اغواء کار جدید اسلحہ اور بہترٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں انکے پاس آمدو رفت کیلئے بہترین وسائل ہیں ا نفارمیشن کا یہ حال ۔۔کہ مغوی کا خاندان اگر سیکورٹی داروںسے رابطہ بھی کرلے انہیں لمحہ بہ لمحہ کی خبر ہوتی رہتی ہے یہ بات اس لئے یقینی طورپر کہی جا سکتی ہے۔

Taliban

Taliban

کہ قانون نافذ کرنے والے اداروںکے بعض اہلکار ان کیلئے کام کرتے ہیں۔جن اغواء کاروں کی مغوی کے گھر والوںسے ڈیل کامیاب نہیں ہوتی وہ ”پرندے” طالبان کو فروخت کردیتے ہیں۔عوام میں خوف وہراس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اغواء کار مطلوبہ رقم وصول کرنے کے بعد بھی مغوی کورہا نہیں کرتے۔ بعض سنگدل رقم بھی لے لیتے ہیں اور مغوی کو قتل بھی کردیتے ہیں حکومت ابھی تک ان کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب نہیںہو سکی جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں ان لوگوں کا شاید خیال ہو اغواء برائے تاوان پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔

کچھ ملزم دہشت ڈالنے کیلئے بھی طالبان کا نام استعمال کررہے ہوںگے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پہلو کی طرف خصوصی طور پر دیکھنا چاہیے حالات بتاتے ہیں پاکستان میں پچھلے دو عشروں کے دورن امن وامان کی صورتِ حال دن بہ دن مخدوش ہوتی چلی گئی ہے جب سے 9/11 کا واقعہ ہواہے طالبائزیشن کی آڑمیں پاکستان ٹارگٹ بن گیا ہے ایک طرف چوروں، ڈکیتوں ، راہزنوں اور دیگر جرائم پیشہ افرادنے عوام کا جینا عذاب بنا رکھاہے پھردہشت گردی کیا کم تھی کہ اغواء برائے تاوان کے واقعات نے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلار کھاہے ایک آزاد ملک کے باسی اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھروںمیں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں ملک گروہی، لسانی، فرقہ واریت اور برادری میں تقسیم اور طبقات میں بٹاہواہے۔

ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں سے یوںتو کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن ان حالات نے کاروباری طبقہ کو خاص طورپر متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے بے چینی،مہنگائی اور بیروزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اس ملک میں باوسائل لوگ ہی محفوظ نہیں تو پھر عام آدمی کے تحفظ کیا ضمانت دی جا سکتی ہے امن و امان کے تحفظ اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی جیسے گھنائونے کام کی روک تھام کیلئے حکومت کیلئے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے موجودہ حالات اورجرائم پیشہ افرادکے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکمت ِ عملی تیارکی جائے سماج دشمن عناصر کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ناگزیرہے۔

یہ لوگ سیاست، مذہب، کاروبار اور معاشرے کے ہر طبقہ میں موجود ہیں سچائی یہ ہے کہ ان وارداتوں میں جو بھی ملوث ہو اس پر کسی قسم کا رحم کھانا معاشرے کے قتل کے مترادف ہے ۔۔۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بے رحم اپریشن کے بغیر کبھی نتائج مثبت نہیں آسکتے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں معاشرے میں خوف کی علامت ہیں اس سے کاروبار، معیشت، معاشرت سب شدید متاثر ہو سکتے ہیں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں سے پورے ملک میں خوف وہراس پھیلار کھاہے۔

ایک آزاد ملک کے باسی اپنے ہی ملک، اپنے شہر اور اپنے ہی گھروںمیں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں اس فتنے کا جتنی جلدی ہو سر کچل دینا ہی سب کے وسیع تو مفاد میں ہے۔ اس پھیلتے ہوئے ناسورکا سدِ باب بہترین حکمت ِ عملی اور منصوبہ بندی سے مستقل بنیادوںپر کیا جانا انتہائی ناگزیر ہے۔ایسے واقعات حکومتی دعوئوں پر سوالیہ نشان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعدم اعتماد بھی ہے اور ان کیلئے چیلنجز بھی۔ رانا جمیل حسن المعروف گڈخان، سابق وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے سمیت تمام مغویوں کی رہائی حکومت کا فرض ہے اس سے کوتاہی بہت مسائل پیدا کرسکتاہے جس کا آج اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

بچے کی طرح چیختارہتا ہے مسلسل
کیا خوف میرے شہرکو سونے نہیں دیتا

تحریر: ایم سرور صدیقی