ہمارا سرکاری نظام تعلیم بھی ٹھیک ہو سکتا ہے

Government School

Government School

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
یہ تو دنیا کا کلیہ ہے کہ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں ویسے حل بھی ہوجاتے ہیں مگر بشرطیکہ، مسائل کے حل کرنے والے اربابِ اقتدار و اختیار مسائل حل کرنا چاہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ گھمبیر سے گھمبیر تر مسائل حل نہ ہوں ہمارے سرکاری اِسکولوں کی حالتِ زاراورفرسودہ نظامِ تعلیم کا مسئلہ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے بس اِس کے لئے یہ قانون بنایا جائے کہ انتخابات میںحصہ لینے کا وہی اہل ہوگا اَب جس کے بچے(یعنی حقیقی اولاد، پوتے ، پوتیاں، نواسے ، نواسیاں ، بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں ہی ہوں نہ کہ… اِس کے نوکروں ، محلے داروں اور دور دراز کے رشتے داروں کے بچے ہوں) سرکاری اِسکولوں میں لازمی زیرتعلیم ہیں اور ہوں گے اور وہ اِس کا حلفیہ اقرار کرے گا کہ یہ سرکاری اِسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یاکریں گے تو پھر دیکھیںہمارے سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار کیسے بہتر ی نہیں آتی ہے اور سرکاری اِسکولوں کا بھی نظامِ تعلیم ٹھیک نہیں ہوتا ہے اور جس اُمیدوار کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہ پڑھ رہے ہوں تو اِسے پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اور اپنے قریبی رشتے داروں کے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور ہا ئیر ایجوکیشن کے لئے سرکاری یونیورسٹیوں میں لازمی پڑھا ئے گااور اگرانکارکرے تو اُسے نااہل قرار دے دیاجائے بس اَب موجودہ صورتِ حال سے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور نیورسٹیوں کواِن کی ابتری سے نکالنے کے لئے یہی ایک چاہ رہ گیاہے کہ اس قسم کے کسی فوری قانونی اطلاق سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت اور عملہ سمیت نظامِ تعلیم بھی ٹھیک ہوسکتاہے ور نہ تو ناممکن ہے، بس اَب اِس منظر اور پس منظر میں گُستاخی معاف! انتہائی عاجزی اور انکساری سے راقم الحرف سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان ، مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثارو معزز ججز صاحبان اور الیکشن کمیشن کے ذمہ داران سے یہ اپیل کررہاہے کہ آج آ پ حضرات جہاں حکمرانوں ،سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے بہت سے بگڑے معاملات کو سُدھرانے کے لئے کمربستہ ہیں تو براہ کرم آپ حضرات یہ بھی کردیں توبہتر نتائج نکلنے کی اُمیدپیداہوسکتی ہے۔

بہر کیف ، جیسا کہ کہاجاتاہے کہ دورِجدید میں کسی بھی دُشمن مُلک کو زیر کرنے کے لئے جنگ و جدل کا بازار گرم کرنے سے پہلے اُس پربغیر ہتھیاروں کے چارسمتوں سے یلغار کی جائے تو بغیر افواج کے بھی کامیابی یقینی ہے بس جس کے لئے اول یہ کہ اُسے اخلاقی اور تہذیبی لحاظ سے مفلوج کیا جائے اِس مقصد کے لئے لازمی ہے کہ اِس کے ہر گھرمیںفحاشی اور عریانیت کو اتنا پھیلا دیا جائے کہ خواہ کسی بھی عمر کا کو ئی بھی فرد ہواِس سے بچ نہ سکے اور مذیبی اور فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکادیاجائے جیسا کہ آج ہم اپنے مُلک میں کھلی آنکھوں سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اِس کے نظامِ تعلیم کوبہتر کرنے کا جھانسہ دے کر ایسی پالیساں مرتب کرائیں جا ئیںکہ برسوں بعد بھی نتیجہ صفر نکلے اِس کے لئے سب سے پہلی ترجیح یہ ہوکہ اِس کے تعلیمی سسٹم کواتنے معیاروں میں تقسیم کرکے اِسے اتنا مہنگا اور سخت کردیاجا ئے کہ اِس تک عام غریب آدمی نہ پہنچ سکے اور تیسرا یہ اِسے معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لئے قرضوں کے بوجھ تلے (جیسا کہ اِن دِنوں پاکستان بیرونی قرضوں تلے دبا ہواہے) اتنا دھنسادیاجائے کہ اِس کی ساری فکرقرضوں کی ادائیگی اور وصولی تک ہی محدود ہوکر رہ جائے اور چوتھا یہ کہ اُس مُلک کے اشرافیہ(حکمرانو، اور سیاستدانوں اور دیگر ذمہ داران) کویہ باور کرادیاجائے کہ جب تک یہ اپنے انداززندگی کو ترقی یافتہ اقوام کے معیار پر نہیں لائیں گے توتب تک یہ کچھ نہیں کرسکیں گے اِس لئے لازم ہے کہ کم ازکم یہ خود کو اُس معیار تک لے کر جائیں جہاں پہنچ کر نہ صرف دنیا کے نزدیک اِن کا وقار بلند ہوگابلکہ اِن کے مُلک اور قوم کا شمار بھی اچھی اقوام میں ہوگا۔

آج بدقسمتی سے میرے ارضِ وطن پاکستان میں ہمارے اغیاراور اپنے نمادوستوں اور دُشمنوں نے کچھ ایسی ہی یلغار شروع کررکھی ہے اور یہ دُشمن کا آلہ ءکار بن کر اُس کی بغیر ہتھیاروں کی چارسمتوںسے پوری پاکستا نی قوم پر یلغار کئے ہوئے ہیں آج پاکستا نی قوم کی جتنی بھی زوال پذیری ہے اِس کے ذمہ دارہماری یہی اشرافیہ ہے آج جو اغیار کے اشاروں پر چل کر مُلک میں فحاشی اور عریانیت کو لبرل ازم ، آزاد خیالی کا نام دے کر پروان چڑھا رہی ہے اورایک طرف سرکاری تعلیمی نظام کو بگاڑ کر دیا ہے تو دوسری طرف نجی تعلیمی نظام کو بہتر بنا نے کی آڑ میں اِسے تقسیم در در تقسیم کرکے مہنگا ترین بنا رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کا حصول صرف امراءکے بچوں تک ہی محدود رہے جبکہ ارضِ وطن میں بسنے والے 95فیصد غریب محنت کش اور غیور پاکستا نی کے بچے تعلیم کے حصول سے محروم رہ جائیں اور یہی وہ اشرافیہ ہے جو مُلکی معیشت اور ترقی و خوشحالی کے نام پر اپنے بیرونِ آقاوں سے بے لگام شرح سود پر قرضے تو اپنی جھولیاں پھیلا پھیلا کرخوب لے رہی ہے مگرقرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کر کے پورے مُلک کو گروہی رکھا رہی ہے اَب اِسے میں ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں تباہی اور پستی کے دہانے تک لے جا نے والے ہمارے یہی لوگ ہیں جوہم پر اشرافیہ کی شکل میں قابض ہیںاور اِن کا ہمارے لئے یہی کردارہے جو یہ ہمارے دوست بن کر ادا کررہے ہیں۔خبرہے کہ وقتِ نزع کی آخری گھڑیوں میں آکسیجن پر پڑی رواں حکومت چلتے چلاتے 27اپریل 2017ءکو مالی سال 2018-19ءکے لئے بجٹ پیش کرے گی جس کا مجموعی حجم 5500ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے اور ایف بی آر کو ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4500 ارب روپے دینے کی تجویز جبکہ دفاعی بجٹ ایک ہزار ارب روپے کے قریب ہوگا۔

منصوبہ بندی کمیٹی نے 17.63کھرب کے ترقیاتی بجٹ کی حتمی شکل بھی دیدی ہے اُدھر اقتصادی ترقی کا ہدف 6.2فیصدمقرر، مہنگائی کی شرح زیادہ نہیں صرف 6فیصد متوقع ،پنجاب کا اے ڈی پی کی مد میں تمام صوبوں سے بڑامجوزہ بجٹ ہونے کا امکان ہے اوراِن تمام نکاتِ خاص کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے آئندہ مالی سال کے لئے ہائرایجوکیشن کمیشن کے لئے تجویزکردہ35ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر 45ارب روپے کردیاہے اِس اقدام کے حوالے سے جن کا خیال یہ ہے کہ ایسا اِس لئے کیا گیاہے کہ اعلیٰ تعلیم ، تحقیق اور سا ئنس و ٹیکنالوجی میں زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے“۔یہ ٹھیک ہے کہ آج ن لیگ کی رواں حکومت کی مدت پوری ہونے میں چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں آج یہ بجٹ پیش کرنے سمیت عوام کو دوسرے معاملات میں ریلیف دینے کے لئے جو کچھ بھی کررہی ہے یہ اگلے متوقع الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے کررہی ہے مگر یہ جو کچھ بھی کررہی ہے یہ مُلک کے 95فیصدغریب عوام سے زیادہ اپنے اور اپنے جیسے امراءاوراِن کے بال بچوں کو تعلیم سمیت دیگر معاملات میں فائدہ پہنچا نے کے لئے کررہی ہے آئندہ بجٹ میں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھرغریب کے جھولی میں آہوں سسکیوں ، مایوسیوں اور ناکامیوں اور نامردی کے سِوا کچھ نہیں پڑے گاجبکہ ہماری اشرافیہ اِس بجٹ میں اپنے لئے بہت کچھ سمیٹ کر گردن تان کر اور اپنا سینہ چوڑاکرکے چلتی بنے گی۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com