وراثتی حکمرانوں سے کب نجات مِلے گی

Pakistani Politics

Pakistani Politics

آج کا ہر پہلا اور دوسرا اِنسان کتنا مصروف ہے، یہ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی شاید جانتے ہوں گے کہ موجودہ دور کا اِنسان دنیا وی معاملات میں کتنا احساس اور اسٹیٹس کے دور میں آگے نکل جانے میں ہر وقت مصروف رہتا ہے، اِس کا اندازہ تو مجھے اپنے روزمرہ پیش آنے والے حالات واقعات اور بہت سے معاملات سے ہو گیا ہے، کیوں کہ میں بھی آپ ہی کی طرح اِسی گردشِ ایام میں رات دن ایک کرتے معاشرے کی ایک اکائی ہوں، اورایسی اکائی جو یہ خُوب جانتی ہے کہ یہ تن تنہا کچھ نہیں مگر بائی چانس جب کبھی معاشرے کی سب اکائیاں کسی نقطے پر باہم متفق اور متحد ہو جاتی ہیں تو اِن اکائیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ معاشرے میں اِنقلاب برپا کر دیتی ہیں۔

آج یوں لگتا ہے کہ مجھ سمیت میرے معاشرے کی ہراکائی اپنی تاریخ کے اُن تمام عظیم اِنقلابوں اور کارناموں سے یکسرغافل ہوچکی ہے،جو اِس کا کبھی طرہ امتیازہواکرتے تھے،تب ہی اَب تک میرے معاشرے کسی انقلابی تحریک اور انقلابی تبدیلی سے محروم ہیں، مگرمجھے اُمیدہے کہ جب کبھی بھی میرے معاشرے کی ہرہراکائی کو اپنے جابروفاسق وفاجرحکمرانوں کے ہاتھوں ہونے والے استحصال کا احساس ہوگیا،تو میرے معاشرے کی ہر اکائی دوسری اکائی سے نتھی ہوتی چلی جائے گی، اور پھریوں ساری اکائیاں مل کرایک نہ ایک روز ضرور اپنے ظالم حکمرانوں سے اپنے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے گی بھی لیں گیں توقومی خزانے سے لوٹی گئی دولت بھی واپس لائیںگیں، اورپھرمیرامعاشرہ اورمیرامُلک جاگیردار، وڈیرے، چوہدری، سائیں، اور خان کی شکل میں ہم پر مسلط ہونے والے وراثتی جابروفاسق اور فاجرحکمرانوں سے نجات حاصل کرلے گا۔

میرے معاشرے اور میرے مُلک کو مہنگائی، بھوک وافلاس، بے روزگاری، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت گری، فرقہ واریت، لسانیت، اور معاشرتی ناہمواریوں سمیت کئی توانائی (بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات ) کے مصنوعی بحرانوں کی شکل میں آئے کئی مسائل سے بھی خودبخود چھٹکار احاصل کر لے گا، کیوں کہ جب میرے معاشرے کی مجھ سمیت ہراکائی یہ جان چکی ہوگی کہ اِس کے معاشرے اور مُلک میں جتنی بھی بُرائیاں ہیں وہ سب اِن ہی وراثتی سیاستدانوں ، جاگیرداروں اور اِن جیسے دوسروں کی وجہ سے تھیں۔

بہرحال…!آج مہنگائی کے اِس دورمیں جہاں میزبان کے لئے مہمان نوازی کرنا مشکل ہو گیا ہے تو وہیں کسی حدتک اِس میں آسانیاں بھی پیداہوگئی ہیں،قبل اِس کے کہ میں میزبان اور مہمان کے حوالے سے مزید کچھ عرض کروں ، یہاں میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ بیشک مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، یہ جس میزبان کی دہلیزپہ جاتے ہیں ، میزبان کے دروازے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی اِس کے گھرمیں اللہ کی رحمتیں نازل ہوجاتی ہیں، اور میزبان جب مہمان کا منہ دیکھتاہے تووہ بس یہ چاہتاہے کہ اِس کی مہمان نوازی میں وہ کیاکچھ کرلے کہ مہمان اِس سے خوش ہوجائے، اور اِس کی میزبان نوازی پراِس کا رب ذوالجلال اِسے اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نواز دے،اِس سے انکارنہیں کہ66سالوں سے ہمارے مُلک میں ہونے والی مہنگائی کے ہردورمیں میزبان اپنے مہمان کو اپنے لئے اللہ کا انعام اور اِس کی رحمت سمجھتاتھامگرآج اِس دورِ جدیدمیں جیسے جیسے مہنگائی سرچڑھتی گئی اور اِنسانوں کی قوتِ خریدبھی اِس سے متاثر ہوئی تو وہیں مہنگائی کے اِس دور میں میزبانوں کی اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، مختصریہ کہ آج اول میں تو جب کسی کے گھرپہ جاؤ تووہ ملتاہی نہیں ہے، اور جب کبھی اتفاق سے کوئی مل بھی جائے توبن بلائے مہمان کو دیکھتے ہی اِس کاچہرہ فق ہو جاتا ہے، اور وہ مہمان کو دیکھ کراپنی بغلیں جھانکنے لگ جاتاہے، تب اِس کا بس نہیں چلتاہے کہ وہ مہمان کا گلاد بادے یا خودمرجائے، میں نے یہ معاملہ غریب میزبان تو میزبان بلکہ اچھے بھلے کھاتے پیتے میزبانوں کے ساتھ بھی ہوتاہوا دیکھاہے ،کہ آج سب ہی اپنے گھرآئے مہمان کو دیکھ کراپنے گھر کے مین دروازے پر ہی اپنا ایسانا گوار سامنہ بناتے ہیں کہ غیرت مندمہمان سمجھ جاتاہے کہ یہ کنجوس میزبان اِس کی اچانک آمدپر کیا مہمان نوازی کرے گا ،اور پھرمہمان باہرہی سے ہاتھ ملاکرجانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے، اور چند ایک منٹ اِدھراُدھر کی باتیں کر اپنی عافیت اِسی میں سمجھتاہے کہ وہ اپنے گھر کا راستہ لے لے، اور میزبان اِس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور اپنے دیگر معاملات میں مگن ہو جاتا ہے۔

Inflation

Inflation

یہاں مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ میں اِس تجربے سے کئی بار گزراہوں، کبھی میں کسی کے لئے میزبا ن بناتوکسی کے لئے مہمان کے روپ میں پیش ہو کر تجربات کی بھٹی میں پک کر کندن بنا، اور آج میں اِس مقام پر ہوں کہ میں اِس مہنگائی اور نفسا نفسی کے دورمیں میزبان اور مہمان کی اہمیت اور ذمہ داریوں کو خوب جانتاہوں،آج میں یہ چاہتاہوں کہ اِس مہنگائی کے دورمیں بھی جب کوئی مہمان میرے گھر کی دہلیز پر اپنے قدمِ مبارک رنجا فرمائے تو میں حسبِ روایت اِس کی خدمت میں چائے بسکٹ یا کھانا پیناپیش کرنے کے علاوہ دورِ جدید کی ضرورتوں کے مطابق ایساکچھ پیش کروں کہ میرے گھر آئے ہوئے مہمان کی تشفی ہواورجب میں بھی کبھی اِس کے گھرحاضر ہوں تو وہ بھی اپنی میزبانی نوازی میں میرے ساتھ ایساہی کچھ کرے جیسامیں کرتا ہوں۔

لہذا آج میں اپنی بے انتہامصروفیات اور قلیل آمدنی کے باوجوداِس جان لیوا مہنگائی کے دور میں بھی اپنے گھرآئے مہمانوں کو اللہ کی رحمت سمجھتاہوں اور اپنے مہمانوں کو خوش آمدیدکہتاہوں اور اِنہیںاپنے ڈرائنگ روم میں نرم وگدازصوفوں پربیٹھانے کے بعد اِنتہائی باآدب لہجے میںمکالمانہ اندازسے یہ دریافت کرتاہوں کہ ” جناب آپ مِنرل واٹر، پیٹرول یاکولڈرنگ میں سے کیا لیناپسندکریں گے…؟(واضح رہے کہ میں مِنرل واٹر اور کولڈرنگ نہیں نوش کرنے کے لئے اور پیٹرول اِنہیں سواری کے لئے پیش کرنے کی دعوت دیتاہوں)پھروہ اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق میری اِس پیشکش میں سے کسی ایک چیرکو طلب کرلیتے ہیں،اور میں بھی ہنسی خوشی اِن کی یہ خواہش پوری کرنا اپنی لئے باعثِ اعزازسمجھتاہوں ، ہاں چائے اور بسکٹ کی تواضع اِن کے علاوہ ہے، میں اپنے مہمانوں کی تواضع مِنرل واٹر، پیٹرول اور کولڈرنگ سے اِس لئے بھی کرنا بہتر سمجھتا ہوں کہ آج اِس مہنگائی کے دور میں میرے ظالم و جابر اور فاسق حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے ملنے والی ہدایات پر عوا م کے لئے مِنرل واٹر، پیٹرول اور کولڈرنگ کی قیمتیں ایک جیسی کردی ہیں، اِس لئے میںیہ چاہتاہوں کہ میں بحیثیت میزبان اپنے مہمانوں کے لئے اِن کی ضرورت کی اشیاء پیش کروں اِس طرح میں اِن کی مددبھی کر دیتا ہوں اور یہ بھی خوش ہوجاتے ہیں،مگرایک بات ہے کہ میری پیشکش کے جواب میں اکثریت اُن مہمانوں کی ہوتی ہے جو مجھ سے ایک لیٹرپیٹرول کے طالب ہوتے ہیں، اور ایک مہینے میں کئی کئی مرتبہ میری مہمان نوازی کا شرف حاصل کرتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں بے وقوف ہوں حالانکہ میں ایسا ہر گز نہیں ہوں جیسا وہ مجھے سمجھتے ہیں۔

میری کیفیت کو میرے گھر آئے مہمانوں کو سمجھنا چاہئے کہیں ایسانہ ہو جائے کہ میں اپنے گھر کے مین گیٹ پر یہ لکھ کر لگا دوں کہ ”کوئی شک نہیں کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، یہ میرے گھر آئیں ضرور آئیں مگر خدا کے واسطے اِس مہنگائی کے دور میں اپنے ساتھ چائے، چینی پتی اور بسکٹ ساتھ لائیں،کیوں کہ گرانی کے بوجھ نے میری کمر توڑدی ہے، اِس بہانے میں بھی چائے، بسکٹ چکھ لوں گا اور آپ کو دعائیں اور اپنے حکمرانوں کو بددعائیں دوں گا، جنہوں نے مُلک میں مہنگائی کو بے لگام چھوڑ کر مجھے اپنی مہمان نوازی کی روایات ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے” سومیرے گھر آئے مہمان کبھی میری ہلکی پھلکی میزبان نوازی پر ہی اکتفا کر لیا کریں اور کبھی بغیر پیٹرول و مِنرل واٹر اور کولڈرنگ سے فیضیاب ہوئے ہی لوٹ جایاکریں، باقی باتیں اگلے کالم میں ہوں گیں اور اَب اِسی کے ساتھ ہی اللہ حافظ….!!

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam


تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com