مشرف کے ٹرائل کا سوال؟

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

یہ سوال زبان زد عام ہے کہ سابق آمروں کے بجائے مشرف کے احتساب کا سوال اتنی شدت سے کیوں اُٹھ رہا ہے آرٹیکل 6 کی کارروائی کے بعد یہ سوال پھر سر اُٹھا رہا ہے کہ اُن کے 9سالہ دور اقتدار میں وہ کونسے اقدامات تھے جو اُنہیں اس نہج پر لے آئے یقینا موخر الزکر سوال بھی جواب مانگتا ہے۔

پرویز مشرف کی حکومت اس سے قبل آنے والی فوجی حکومتوں سے مختلف تھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو 1990میں جب اقتدار سے نکالا گیا تو غلام مصطفے ٰجتوئی کو عبوری وزیر اعظم بنایا گیا جنہو ں نے چند کلیدی، اقتصادی فیصلے کیئے انتخابات کرائے اور رخصت کیئے گئے 1993میں جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو ختم کیا گیا تو معین قریشی کو لایا گیا جس نے پہلے کی طرح کلیدی فیصلے کیئے اور چلتے بنے پھر 1996میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوبارہ حکومت ختم کی گئی تو معراج خالد کو قائم مقام وزیر اعظم بنایا گیا یہی عمل دوبارہ دہرایا گیا جبکہ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو یہ ایک ایسا طویل دورانیہ تھا جس نے اٹھارہ کروڑ عوام پر زندگی کی ہر سانس تنگ کر دی جنرل مشرف نے اقتدار میں آتے ہی سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا جو حقیقت میں اُن کے اقتدار سنبھالنے کے سیاسی جواز کے علاوہ کچھ نہ تھا سو دنوں کے اندر مشرف حکومت کو امریکہ نے ایک اچھی بغاوت قرار دیکر تسلیم کیا جس کا حقیقی مقصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ایجنڈا کو پورا کرنے کیلئے تیز ترین اقتصادی اصلا حات کا نفاذ تھا اس لبرل ایجنڈا کو جنوری 2000تک مشرف نے مختلف شکلوں میں نافذ کرنا شروع کر دیا تیل زیرو سے ایک فیصد مہنگا کر دیا ،15فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ ،بجلی کے بلوں اور بعد ازاں پرچون کی سطح تک کیا گیا نجکاری کے عمل کو تیز تر کر دیا گیا عسکری مانیٹرنگ ٹیمیں ہر محکمہ میں آگئیں مسلم لیگ ن کے ظفر علی شاہ نے 12اکتوبر 1999کے اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی مگر اُس 12اکتوبر کے اقدام کو جائز قرار دے دیا گیا۔

مشرف نے 23مارچ 2000کو ضلعی حکومتوں کا تصور پیش کیا اگست 2001تک پاکستان میں ضلعی حکومتیں قائم کرنے کا مرحلہ وار پلان پیش کیا گیا ایسے افراد کو ضلعی نظامتیں دی گئیں جن کی اکثریت قابل احتساب تھی اُن سے کروڑوں روپے وصول کر کے عوم کے حق خود ارادیت کا خون کیا گیا ضلعی حکومتوں کا پلان دراصل مشرف اقتدار کو طوالت دینے کی ایک جامع کوشش تھی جس میں عوم کو ایک آمرانہ حکومت کے سائے تلے کسی حد تک اقتدار میں شریک ہونے کا سرابملا آمر جب بھی اقتدار سنبھالتے ہیں تو اُنہیں اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے کا جوش چڑھ جاتا ہے مقصد عوام کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ آمر نہیں حقیقتا اِس طریقے سے وہ عوام میں اپنے دوستوں کی تلاش کا عمل شروع کرتے ہیں ایوب خان دور کی بنیادی جمہوریت ،ضیا ء الحق دور میں 79,83,87کے لوکل باڈی الیکشن اس سلسلے کی کڑیاں تھیں مشرف نے 2001ء اور بعد ازاں 2005میں دو مرتبہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت انتخابات کراکے اپنے دور کی طوالت کیلئے کامیاب راستہ اختیار کیا مگر دوسری خراف یہ بھی در آئی کہ لامحدود اختیارات اور کرپشن کے سنگھاسن پر ضلعی ناظمین کی شکل میں چھوٹے آمر بیٹھ گئے۔

Terrorism

Terrorism

عالمی ادادرہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں ایک بھی عام آدمی ضلعی ناظم منتخب نہ ہوسکا بلکہ ہر جگہ پیسے کی خریدو فروخت سے سر مایہ دار جاگیر دار طبقہ اور عسکری حمایت یافتہ افراد ضلعی ناظمین بن گئے 11ستمبر کا خود ساختہ واقعہ ہوا تو امریکی نائب وزیر خارجہ آرمیٹج نے جنرل محمود کو نیو یارک بلاکر کہا کہ یا تو کھل کر ہماری حمایت کرو ورنہ تمہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر بنا سوچے سمجھے امریکی احکامات پر پوری قوم کی خود داری بیچ دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نہ صرف صلیبی جنگ کا حصہ بنے بلکہ مشرف حکومت سینکڑوں باریش مسلمانوں کو دہشت گردی کی سند امریکہ کی طرف سے عطا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئی نائن الیون کے بعد جنرل مشرف جس کانام بھی 1999میں بش کو یاد تک نہ تھا فیملی فرینڈ بن چکا تھا 2002ء میں مشرف نے سیاسی بنیادوں پر اگلے عام انتخابات کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا اعلان انتخابی اصلاحات کے نام پر کیا اور جنوری 2002میں یہ اعلان بھی کیا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے مقدمات کا خوف دلاکر اور نیب کی چھڑی سے وننگ گھوڑوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔

اپریل 2002میں جنرل ضیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کو بائے پاس کرنے کیلئے ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا تاکہ بطور صدر مزید پانچ سال اقتدار میں رہا جاسکے اس ریفرنڈم میں دعویٰ کیا گیا کہ 80فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں جبکہ حقیقتا صرف پانچ فیصد ووٹ وہ پڑے جو سرکاری ملازمین کے تھے الیکشن کمیشن نے سفید جھوٹ بول کر ایک آمر کے قول کو سچ کیا اسی ریفرنڈم کے موقع پر فیصل آباد میں صحافیوں کی طرف سے سچ آشکارہ ہونے کے خوف کی بنا پر صحافیوں پر بد ترین تشدد کیا گیا اکتوبر 2002میں دھاندلیوں سے بھر پور سٹریٹجی کے مطابق آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹیوں کو جتوایا گیا یہ الیکشن نہ ہی جمہوری تھے اور نہ جمہوری روایات کے مطابق ہوئے سال 2002میں ہی مشرف نے مذہبی جماعتوں کے تعاون سے ایل ایف او منظور کیا اور سال 2004میں وردی اُتارنے کا وعدہ کیا ایل ایف او کی منظوری نے مشرف کو آئینی چھتری فراہم کی یہ ایک فیصلہ کن دور تھا ایل ایف او کے منظور ہونے اور مشرف کو اعتماد کا ووٹ حاصل ہونے کے بعد امریکی و دیگر سامراجی قوتوں کیلئے مشرف کی حمایت کو کھل کر جاری رکھنے کا موقع ملا مشرف کے 9سالہ دور کی اہم خصوصیت نیو لبرل ایجنڈا کو تیزی سے عمل درآمد کرانے کی جابرانہ پالیسی تھی اس دور میں تیزی سے نجکاری پر عمل کیا گیا پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی ادارے پاکستان سٹیل ملز کا سودا صرف 22ارب روپے میں کر دیا گیا شور مچ جانے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ،24ارب روپے مالیت کی پاکستان انجینرنگ کمپنی ) PECO)کو صرف پانچ کروڑ میں بیچ دیا گیا ملتان میں واقع پاک عرب فرٹیلائزر کو صرف 13ارب میں بیچا گیا۔

س کی قیمت تین گنا زیادہ تھی جن لوگوں کو یہ منافع بخش ادارے بیچے گئے وہ نہ صرف مشرف کے حواری تھے بلکہ اُن کو مارچ2004میں ستارہ امتیاز جیسے تمغوں سے بھی نوازا گیا یعنی جتنی زیادہ کرپشن اُتنے تمغہ جات 470ارب روپے کے حبیب بنک کو صرف 21ارب روپے میں بیچا گیا گیس ،تیل،بجلی ٹرانسپورٹ کی نجکاری کرکے اور ریلوے کی نجکاری کے پراسس کو آگے بڑھا کر ان کے تمام اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دئے گئے عالمی بنک ،آئی ایم ایف کے ایک تنخواہ دار ملازم کو وزیر اعظم بنا کر ان لوٹ کھسوٹ کے اداروں کی کڑی شرائط پر عمل درآمد کرایا گیا۔

گیارہ ستمبر کے خود ساختہ واقعہ پر بلاتردد و چون و چرا عمل درآمد سے خود کش دھماکوں اور حملوں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا ،ڈرون حملے مشرف کا تحفہ ہیں اور امریکہ کی جو جنگ مشرف نے شروع کی اُس میں 34ہزار افراد موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں 6جولائی 2007کو لال مسجد اور جمعہ حفصہ کے مکینوں کے خلاف آپریشن میں مبینہ طور پر فاسفورس بم استعمال کیئے گئے ،زہریلی گیس چھوڑی گئی ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائی گئیں جس نے انسانیت کو جلا کر بھسم کر دیا۔

M.R.MALIK

M.R.MALIK

تحریر : ایم آر ملک