تاریخ سے سبق سیکھیں

Shah Mehmood Qureshi

Shah Mehmood Qureshi

کسی شاعر نے خوب لکھا تھا کہ ’’آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے وہ صدائیں عمر بھر پیچھاکرتیں ہیں‘‘ 2011ء میں یہ شاہ محمود قریشی کے دورے کے موقع پر سندھ میں نامعلوم افراد نے مختلف شہروں میں بینرز لگائے تھے جن پر لکھا تھا ’’تاریخ سے سبق سیکھیں‘‘ فاروق لغاری کا حشر یاد رکھیں۔ تاریخی حوالے سے شاہ محمود قریشی پاکستان کا 31 مارچ 2008ء تا فروری 2011ء تک وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کا کارکن رہے۔ زرداری حکومت سے بدظن ہو کر وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور بالآخر نومبر 2011ء میں زرداری جماعت اور پارلیمان سے بھی مستعفی ہو گیا۔ماضی میں ان کا خاندان انگریز راج کی حمایت کے لیے بدنام ہے۔

14نومبر 2011 کو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’میں زرداری لیگ چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں‘‘وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں ہے جو بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی ہوتی تھی۔’’یہ زرداری لیگ ہے اور میں زرداری لیگ سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں‘‘ صدر زرداری میں ہمت نہیں ہے اور وہ مصلحت کا شکار ہیں۔مسلم لیگ قاف سے اتحاد کرنے پر پیپلز پارٹی کے کارکن ناخوش ہیں۔

PPP

PPP

بینظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل ہونے تک قاتل لیگ سے اتحاد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ عمل میثاق جمہوریت کے بھی خلاف ہے۔یہ اتحاد پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائے گا، یہ بہت بڑی تاریخی غلطی ہوگی ۔ کیوں کہ ان کے ذہنوں میں شکوک و شہبات ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے قتل سے پہلے اپنی ای میل میں جن افراد سے اپنی جان کو لاحق خطرے کا اشارہ دیا تھا ان میں مسلم لیگ قاف کے رہنما اور پنچاب کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز لٰہی کا نام بھی شامل تھا۔ وہ بے گناہ ہو سکتے ہیں لیکن جب تک تحقیقات سامنے نہیں آتی اس وقت تک کارکن ذہنی طور پر اس اتحاد کو قبول نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ محترمہ نے جن کا ذکر اپنی ایک ای میل میں کیا تھا انہیں نائب وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے اور اس پر لوگوں کو تحفظات ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ یہ اتحاد کسی قومی ایجنڈے کے لیے نہیں بلکہ ذاتی ایجنڈے کو فروغ دینے اور اس کو تقویت پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے دو ہزار آٹھ کا انتخاب مسلم لیگ قاف کے خلاف لڑا تھا کیوں کہ وہ حکومتی جماعت سمجھی جاتی تھی اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی چھتری کے نیچے انتخاب لڑ رہی تھی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف کے درمیان اتحاد زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا کیوں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظیریاتی ہم آہنگی نہیں ہے اور یہ اتحادباہمی مفادات کے تحت کیا جا رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی سے علیحدہ نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی فاروق لغاری بنیں گے۔ان کے مطابق پارٹی قیادت سے اختلافات نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایماندار قیادت آگے آئے۔دو شہریوں کے قتل میں ملوث امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت کے تنازعے پر بظاہر شاہ محمود قریشی کو وزارتِ خارجہ نہیں دی گئی۔

جس کے بعد ملتان کے اس پیر نے سندھ کا سفر شروع کیا اور گڑھی خدا بخش میں اپنے سیاسی پیروں کی درگاہ پر حاضری بھی دی۔شاہ محمود قریشی کے دورے کے موقع پر سندھ میں نامعلوم افراد نے مختلف شہروں میں بینرز لگائے۔ جن پر لکھا تھا ’تاریخ سے سبق سیکھیں، فاروق لغاری کا حشر یاد رکھیں۔ جبکہ اْن کے مریدوں نے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے جہاں خیر مقدمی بینر آویزاں کیے وہاں مقامی اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات بھی شائع کروائے۔شاہ محمود قریشی کے دورہ سندھ سے پیپلز پارٹی نے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ پارٹی کو اس دورے کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی اس لیے اْن کے استقبال کے لیے پارٹی نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اْن کے دورے کے موقع پر مختلف اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی (بینظیر بھٹو گروپ) بنانا چاہتے ہیں اور وہ ناہید خان، صفدر عباسی، ممتاز بھٹو، اعتزاز احسن، غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو سے رابطے کریں گے۔

اْن دنوں سندھ حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کا کراچی میں ایک اجلاس طلب کیا گیا اور مخدوم امین فہیم نے اپنے بعض مریدوں کو پیغام دیا کہ وہ اس اجلاس میں نہ جائیں۔ جس پر انہیں جواب ملا ’قبلہ آپ مرشد ہیں، جان بھی حاضر ہے لیکن ووٹ شہید بہن بینظیر کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شاہ محمودقریشی اپنے ماضی کے تمام وعدے بھول چکے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے الفاظ’’تاریخ سے سبق سیکھیں‘‘ کو یادنہیں رکھا۔مستقبل میں شاہ محمود قریشی کا تحریک انصاف کے حوالے سے کوئی نیا بیان سامنے آنے والا جس کی پوری پاکستان قوم منتظر ہے۔کیونکہ اتحاد تواتحاد ہوتاہے ۔’’مسلم لیگ قاف سے ہو یا قتل لیگ سے‘‘ سیاست میں سب جائز ہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر:غلام مرتضیٰ باجوہ