(موجودہ دور کی مادی ترقی اور حقیقت کی تلاش)

Technology

Technology

تحریر : اقبال زرقاش
انسانی ذہن ،عروج و ارتقاء کے اُن مراحل میںہے کہ یوں احساس ہوتاہے کہ یہ ارتقاء اپنے کمال کو چھو رہاہے آج انسان کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ریکارڈ ہو جاتی ہے اور اس بات کو جب چاہے سن سکتاہے ۔قبل از وقت موسم کی برہمی کا پتہ چل جاتاہے طوفان بادو باران کا اعلان اور سمندر کے اتار چڑھاؤ کا علم ہو جا تا ہے ۔رسل و رسائل کے ذرائع اس قدر آسان ہو گئے ہیں کہ مہینوں کا سفر منٹوں میں طے ہونے لگاہے آج کے مسافر کو نہ راستے کی صوبتوں کا کوئی خوف ہے اور زاد راہ کا کوئی اندیشہ ۔ہوائی جہاز نے کائنات کی وسعتوں کو سمیٹ کے رکھ دیا ہے موبائل نے پیغام رسائی کو عام کر دیا ہے ہم دور دراز گوشے میں رہنے والے دوستوں سے ہم کلام ہو سکتے ہیں۔

ٹیلی ویژن کمپیوٹر تو انسانی ذہن کے معجزے ہیں ہم عالمی حالات سے پل بھر میں باخبر ہو جاتے ہیںآج کا انسان ذروںکا دل چیرتا اور خورشید کا لہو ٹپکاتاہے ۔بہتے ہوئے پانی سے بھی بجلی اُبھارتا اور ذہن کی گہرائیوں سے وہ نعمتیں نکالتا ہے جنہوں نے زندگی کو سکون و راحت کا گہوارہ بنا دیا ہے یہ ارتقاء اور یہ کمال محض مولا کریم کی عطا کر دہ صلاحیتوں کے حسن استعمال کا نتیجہ ہے ۔اللہ پاک نے انسان کو تلاش و جستجو کا جذبہ عنایت کیا ہے وہ کسی ایک چیز پر مطمئن نہیں رہتا بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رواں دواں ہے وہ آسمان کی رفعتوں سے زمین کیطرف آیا تھا۔

آج ایک بے نام سی لگن ہے جو اسے پھر سوئے افلاک لیئے جارہی ہے نہیں معلوم کہ وہ اپنی جنت گم گشتہ کو پھر سے پانے کا آرزو مند ہے یا خلاؤں اور فضاؤں میں بھی اپنے افضل اور اشرف ہونے کے لیئے پرچم گاڑنا چاہتاہے ۔اس تمام انسانی ارتقاء کے پس پردہ حقائق کی تلاش ہے گویا انسان ہر شے کی تہہ تک پہنچنا چاہتاہے جبکہ کائنات کی ہر شے اپنے اندر حقائق کو معارف کی ایک دنیا لیئے ہوئے ہے ذرے سے آفتاب تک ایسی سچائیاں بکھری ہوئی ہیں جو ایک سلیم الفطر ت انسان کو رب کائنات کے قریب تر کر دیتی ہے ۔
بقو ل شاعر
اتنا چسکا مجھے افشائے حقیقت کا پڑا
آسمانوں میں بھی روزن،پس روزن دیکھوں

Technology

Technology

ہمیں اپنے گردو پیش جو ارتقاء کے جو زاویے نظر آتے ہیںوہ اس سائنسی شعور کی بدولت ہیںہماری زندگی سراپاانقلاب بن کر رہ گئی ہے ہر لحظہ رتغیر پذیر ہے ماضی کی ناممکن باتیں آج ممکن ہوگئیں ہیں اور قدیم قصے کہانیوں میںجان پڑ گئی ہے اگریہ سائنسی سوچ کارفرمانہ ہوتی تو انسان کو شاید اس حقیقت کا احساس کارفرمانہ ہوتا وہ اشرف المخلوقات ہے اور کائنات اس کی مطیع فرمانبردار ہے ۔دور حاضر کی ایجادات اس قدر حیران کن ہیںوہ انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا اعجاز معلوم ہوتی ہیںاور یوں معلوم ہوتاہے قدیم دیو مالائی داستانیں اور جنات کے کارنامے حقیقت کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔

ایک طرف سائنسی انکشافات کی برکات بے اندازہ ہیں تو دوسری طرف اس کی ہلاکت آفرینیاں بھی اس قدر بے کراں ہیںکہ انہیں محسوس کر کے دل کانپتاہے اور روح لرزتی ہے ۔کاش انسان اورد ِ دل کی دولت سے مالا مال رہے ،ستاروں کی گذرگاہوں میں سفر کرے مگر اپنے افکار کی دنیا میں بھی جھانکے۔

سورج کی شعاعوں کو گرفتار ضرور کرے مگر اپنی شب تاریک کو بھی نظر انداز نہ کرے ۔ضرورت ہمدردی ،اخوت اور جذبہ باہمی کو اس پاکیزہ فضا کی ہے کہ اگر کسی دور افتادہ انسان کے پاؤں میں کانٹا چھبے تو دوسرا انسان اس کانٹے کی خلش اپنے دل میں محسوس کرے اور یہی مقصود ہے علم و حکمت کے اُن خزانوں کا جو روز ازل آدم کو عطا ہوئے تھے اور جنہوں نے اسے فرشتوں سے بر تر بنا دیا ہے۔

Iqbal Zarqash

Iqbal Zarqash

تحریر : اقبال زرقاش