کوئی اُمید بَر نہیں آتی

PPP

PPP

ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ صبحِ اُمید کا نورِ منور شبِ تار میں دراڑیں ڈالنے آن پہنچا اور وہ وقت قریب آن لگا جب فضائے بسیط میں تمناؤں کی تتلیاں جھولا جھولنے لگیں گی، ہر بام پہ اُمیدوں کے دیپ روشن ہو جائیں گے اور لق و دق صحراؤں میں بھی آشاؤں کے پھول کھل اُٹھیں گے لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا”۔ اب بھی وہی اُداسیوں کے ڈیرے، آسیب کے مہیب سائے اور وہی رنج و مہن میں ڈوبی کَرب کی صدائے باز گشت۔ کچھ بھی نہیں بدلا سوائے چہرے بدلنے کے، پہلے دورِ آمریت، پھر پیپلز پارٹی اور اب نواز لیگ۔ چہرے جدا، جدا کرتوت ایک۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میری ارضِ پاک کو کوئی آسیب روگ کی طرح چمٹ گیا ہو اور
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
آمر مشرف اور پیپلز پارٹی نے قوم کو مایوسیوں کے بحرِ بے کنار میں یوں دھکیلا کہ اعتبار کا کوئی قرینہ، کوئی سلیقہ باقی نہ بچا۔ پھر عمران خاں صاحب تشریف لائے۔

اُنہوں نے ایسے دل خوش کن خواب بنُے کہ قوم، خصوصاََ نوجوان تصورات کی جنت نظیر وادیوں میں پہنچ گئے۔ اِک شور اُٹھا اور ہر طرف خاں صاحب کی جے، جے کار ہونے لگی لیکن خواب تو بہرحال خواب ہوتا ہے جو کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتا ہے۔ سیاسی نومولود کپتان صاحب سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ آمدہ الیکشن تک ہی اِن خوابوں کی پرورش کر لیتے۔ الیکشن سے بہت پہلے وہ خواب چکنا چور ہو گئے اور آج تہی داماں عمران خاں صاحب اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر دھرکر اپنے آپ کو مطمعن کرنے کی سعی ٔ لا حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ میاں برادران خارزارِ سیاست کے کُہنہ مشق شناور ہیں۔ وہ جلا وطنی کا دُکھ بھی سہہ چکے ہیں اور اُن کے ”میڈ ان پاکستان” ہونے میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں۔ اِن حالات میں عوام کے سامنے سوائے نواز لیگ کے کوئی ”آپشن” ہی نہیں تھا۔

اِس لیے قوم نے 2013 ء کے انتخابات میں نواز لیگ کو پروانہ وار ووٹ دے کر اپنا آخری داؤ کھیلا۔ میاں نواز شریف صاحب کی شدید خواہش دو تہائی اکثریت کا حصول تھا جسے قوم نے اُن کے دامن میں ڈال دیا۔ اب میاں صاحب کے ایفائے عہد کی باری ہے جس کی قوم تا حال منتظر ہے۔ حکومت کے ابتدائی دنوں میں میاں نواز شریف صاحب کے چہرے پر چھائی گھمبیر خاموشی اُن کے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے عزم کا پتہ دیتی ہے لیکن سو دن گزرنے کے بعد بھی کچھ نہ بدلا سوائے مہنگائی کے جو کم ہونے کی بجائے آسمانوں کی وسعتوں کو چھونے لگی ہے۔ بقراط نے کہا ”جس دروازے سے شک اندر داخل ہوتا ہے، اُسی دروازے سے اعتماد باہر نکل جاتا ہے”۔ پیمانۂ صبر لبریز کیے بیٹھی اِس قوم کے اذہان میں شکوک و شبہات کے سیاہ ناگ لہرانے لگے ہیں اور کوئی وقت جاتا ہے جب صبر کے اِن پیمانوں کے چھلک جانے سے وہ طوفانِ بَلا خیز اُٹھے گا جس میں ہر کہ و مہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کیونکہ اب بھی اگر کہیں اُمید کی ہلکی سی کرن نظر آتی ہے تو ”درِ نواز ” کے روزن سے۔

PML-N

PML-N

لیکن نواز لیگ کو اپنی اداؤں پہ غور کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا ہو گا کہ خوش قسمتی تمام چنچل لڑکیوں میں سب سے زیادہ شوخ و شنگ ہوتی ہے جو کسی جگہ لمبے عرصے کے لیے کبھی نہیں ٹھہرتی۔ وہ آپ کے پاس آتی ضرور ہے لیکن جلد بھاگ جاتی ہے جبکہ بد قسمتی بڑی متانت سے تشریف لاتی ہے اور آپ کے بستر پر بیٹھ کر ”سینا پرونا ” شروع کر دیتی ہے۔ خوش قسمتی اور بد قسمتی کے اِس چکر سے میاں برادران بخوبی واقف ہیں لیکن ہیگل کہتا ہے حکمرانوں نے تاریخ سے کبھی کچھ سیکھا نہ تاریخ سے اخذ شُدہ قوانین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی۔ نواز لیگ جب عام انتخابات کے لیے کمر بستہ تھی، اُسے تب بھی خوب علم تھا کہ پیپلز پارٹی ملک کو اندر سے کھوکھلا کر چکی ہے۔ اکابرینِ نواز لیگ یہ بھی جانتے تھے کہ معجزانہ تبدیلیاں ممکن ہیں نہ معیشت کو یکلخت رفعتوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔

اِس لیے اب یہ واویلا کرنا محض کارِ بیکار ہے کہ پیپلز پارٹی نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی میاں صاحب قوم کو اعتماد میں لے کر سب کچھ کھول کھول کر بیان کر دیتے لیکن اُنہیں تو بیرونی دوروں سے ہی فرصت نہیں ۔وہ جب کبھی ملک میں تشریف لاتے ہیں تو غریبوں کی ہمدردی میں ایک آدھ بیان داغ دیتے ہیں۔ نیویارک سے واپسی پر انہوں نے فرمایا ”بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم نچلے طبقے کے مفادات کا تحفظ کریں گے ”۔ لیکن اُسی دن اُن کے دل کے بہت قریب وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب نے یہ بیان دینا اپنا فرض سمجھا کہ ”بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کڑوی گولی ہے بیمار معیشت کے علاج کے لیے کڑوی گولی کھانا پڑے گی ”۔ جنابِ چیف جسٹس نے فی الحال تو یہ کڑوی گولی واپس کر دی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت نے نیپرا سے بجلی کے نئے نرخ لانے کی درخواست بھی کر دی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ تحریری جواب داخل کیا ہے کہ نیپرا کی طرف سے نئے نرخ آنے کی صورت میں ان کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہی ہو گا۔

گویا اِس کڑوی گولی کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں لیکن حکومت نے اُن میں اضافہ کر دیا ہے جس سے فوری طور پر اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ دست بستہ عرض ہے کہ قوم تو اب بھی کڑوی گولی نگلنے کو تیار ہے لیکن منتظر ہے کہ کب حاکمانِ وقت کے حلق سے ایک کڑوی گولی نیچے اُترے اور قوم دس، دس گولیاں پھانک جائے۔ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اب قوم تو کڑوی گولیاں نگلتی رہے گی لیکن قوم کی رہبری کے دعوے دار اپنی عیاشیوں میں مگن رہیں گے۔ تحقیق کہ اب ہر کسی کو اپنی بے ڈھنگی چال کو سیدھا کرنا ہو گا کیونکہ اب کسی میں تاب و توانِ صبر باقی نہیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے میاں برادران کو یہ تو علم ہی ہو گا کہ دینِ مبیں میں ”ایفائے عہد” پر کتنا زور دیا گیا ہے اور اُنہوں نے الیکشن سے پہلے قوم کے ساتھ کتنے اور کون کون سے وعدے کیے تھے ۔میاں برادران سے والہانہ لگاؤ کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی کہ انہوں نے بلند آہنگ سے متعدد بار کرپشن کے بڑے بڑے مگرمچھوں کو چوراہوں پہ لٹکانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ حکمرانوں کی بسم اللہ ہی مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے سے ہو گی لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ساڑھے تین ماہ گزر گئے، ابھی تک چیئرمین نیب بھی مقرر نہیں ہو سکا۔ چیئر مین نیب کے تقرر کے لیے نِت نئے نام سامنے آ رہے ہیں لیکن کسی کو پیپلز پارٹی مسترد کر دیتی ہے تو کسی کو نواز لیگ۔

قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ وزیرِ اعظم سے ہر ملاقات کے بعد میڈیا کو یہی کہتے ہیں کہ اُنہیں چیئرمین نیب کے انتخاب کی جلدی نہیں۔ شاہ صاحب کا فرمان بالکل بجا ہے کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر کسی سچے، کھرے اور غیر جانبدار چیئرمین نیب کا تقرر ہو گیا تو پیپلز پارٹی کی غالب اکثریت سلاخوں کے پیچھے نظر آئے گی۔ سوال مگر یہ ہے کہ نواز لیگ کو کون سا خوف مارے جا رہا ہے؟۔ آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے مطابق اگر قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کسی ایک نام پر متفق نہ ہوں تو آخری فیصلہ صدر نے ہی کرنا ہوتا ہے اور صدر ممنون حسین تو ملکی صدارت ملنے پر ویسے ہی میاں نواز شریف صاحب کے ممنون ہیں۔ پھر اتنی دیر کیوں؟۔ کیا محترم خادمِ اعلیٰ اپنے باپ سمان بڑے بھائی کو یہ بتلانے کی زحمت کریں گے کہ انہوں نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا قوم سے ہزار مرتبہ وعدہ فرمایا۔ اور کیا چیئرمین نیب کی تقرری کے بغیر وہ ایفائے عہد کر سکتے ہیں۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر