ہسپتال بھی موت بانٹنے لگے ہیں

Pakistan

Pakistan

ہمارے ملک کا تو گویا آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے۔ پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکو اور بھیڑئیے ، مسیحائوں کے روپ میں لٹیرے، فقیر کے روپ میں کالے علم کے پجاری، عالم دین کے روپ میں جہالت اور فرقہ پرستی کا زہر بانٹنے والے، غرض انسانیت کا لبادہ اوڑھے جا بجا شیطان دیکھنے کو ملتے ہیں۔مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے کانوں میں علامہ اقبال کا یہ شعر گونج رہا ہو۔
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوسِ حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

پاکستان میں پھیلتی بیماریوں کی شرح خطرناک حد کو چھونے لگی ہے۔دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہسپتال جنہیں زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے آج موت بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ صرف ایکسپائریا غلط تجویزکردہ دوا یا استعمال شدہ سرنج ہی مزید بیماریوں کا سبب نہیں بلکہ ہسپتال سے روزانہ نکلنے والا کچرا بھی بیسیوں بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ نجی و سرکاری ہسپتالوں سے نکلنے والا یہ کچرا فٹ پاتھ اور کچرا کنڈی میں پھینک دیا جاتا ہے۔

جو یہاں سے گزرنے والوں اور اس علاقہ میں قائم انسانی بستیوں کے باسیوں کے لئے موت کا سامان بن جاتا ہے۔ایڈز، ہیپاٹائٹس اورکینسر جیسے موذی امراض میںمبتلا افراد کو لگائی جانے والی ڈرپس ، سرنجیں اور ان کی سوئیاں سکول آتے جاتے بچوں اور دیگر راہ گزروں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ اگر تینوں اقسام کے کچرا کو ایک ہی جگہ پر ڈال دیا جائے تو تمام کا تمام کچرا خطرناک ہو جاتا ہے۔

Choosing Garbage

Choosing Garbage

کچرا چننے والے اس کچرے سے ری سائیکل ہو جانے کے قابل اشیاء جیسے پلاسٹک وغیرہ ان فٹ پاتھ اور کچرا کنڈی سے اٹھا کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں جوری سائیکل ہو کر برتنوں کی صورت جان لیوازہر بن کر ہمارے گھروں میں استعمال ہونے لگتا ہے۔کچرا کنڈی میں پڑایہ کچرا جب جلایا جاتا ہے تو چمنیوں سے اٹھنے والا دھواں اور بدبو گردونواح کے رہائشیوں کے لئے شدید مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ ملک کے چند بڑے اور جدید ہسپتالوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر وارڈ میں تین قسم کے ڈبے رکھے گئے ہوتے ہیں۔

سرخ رنگ کے ڈبے میں highly infected کچرا ڈالا جاتا ہے، برائون رنگ کے ڈبے میں نسبتاً ہلکی نوعیت کا کچرا جیسے سوئی اور ڈرپ سیٹ وغیرہ ڈالا جاتا ہے جبکہ نیلے رنگ کے ڈبے میں عام کچرا ڈالا جاتا ہے۔ highly infected کچرے کو کچرا جلانے والا آلات کی مدد سے ایک خاص درجہ حرارت پر جلایا جاتا ہے تا کہ جراثیم تلف کئے جا سکیں۔ مگر نوے فیصد ہسپتالوں میں یا تو یہ آلات موجود نہیں اور اگر ہیں تو انہیں استعمال نہیں کیا جاتا۔نتیجتاًہسپتالوں میں پڑا یہ کچرا نشئی لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔

جو اس میں موجود کانچ اور پلاسٹک کی بوتلیں اور گتہ وغیرہ اٹھا کر کباڑیوں کو باآسانی بیچ دیتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے تو سکیورٹی پر مامور گارڈزا ور ہسپتال انتظامیہ پر۔ان بے حس لوگوں سے کیوں کوئی پوچھنے والا نہیںہے۔

عوام کے پیسے پر پلنے والے یہ لوگ کیوں اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں اور قوم کا مستقبل تاریک بنا رہے ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس سنگین کوتاہی کا سختی سے نوٹس لینا ہو گاتاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے کا یہ دھندا تھم سکے۔

Tajmal Mahmood

Tajmal Mahmood

تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428