حوثی بغاوت کیا رخ اختیار کرے گی؟

Yemen Rebels

Yemen Rebels

تحریر: فاروق اعظم
بحرِ قلزم اور بحرِ عرب کے سنگم پر واقع ملک یمن جزیرہ عرب میں اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ اس سرزمین سے نہ صرف عربوں کی تاریخ جڑی نظر آتی ہے، بلکہ ذخیرہ احادیث میں بھی اس کا تذکرہ بحرفِ خیر موجود ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے، جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو قریش مکہ کے مظالم پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”اللہ اس امر (یعنی دین) کو پورا کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا۔”

عرب عاربہ کا گہوارہ ملک یمن قبل مسیح اور مابعد میں طویل عرصہ قوم سبا کا مسکن رہا ہے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ مکہ کو ڈھا دینے کی نیت رکھنے والے عظیم لشکر جرار کے سپہ سالار ابرہہ یمن کے دارالحکومت صنعاء سے ہی عازم سفر ہوئے تھے۔ آج اسی ملک سے ایک بار پھر سرزمین حرمین الشریفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی عمومی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ چار برسوں میں تیونس اور مصر سے شروع ہونے والے بغاوتوں کے سلسلے نے لیبیا، شام اور عراق کے بعد اب یمن کا رخ کرلیا ہے۔ اگرچہ یمن میں حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان کشمکش کی کیفیت نوے کی دہائی سے برقرار ہے۔ تاہم یمن کا موجودہ بحران اپنی شدت کے لحاظ سے عالمی منظر نامے کا رخ اپنی طرف موڑ چکا ہے۔

سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے 33 سالہ دور اقتدار میں نوے کی دہائی مسرت اور مصیبت دونوں پہلوئوں کو ایک ساتھ لیے طلوع ہوئی تھی۔ ایک طرف شمالی اور جنوبی یمن کے باہم انضمام سے خلیج عدن اپنی تمام تر زرخیزی کے ساتھ علی عبداللہ صالح کے تصرف میں آیا۔ تو دوسری طرف حسین بدرالدین الحوثی کی قیادت میں تنظیم ”شباب المومنین” نے عبداللہ صالح کے لیے مشکلات پیدا کردیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں حسین بدرالدین کی تحریک اس قدر توانا ہوئی کہ عبداللہ صالح کی جانب سے عراق پر امریکی حملے کی حمایت سے اختلاف کرتے ہوئے 2004ء میں مسلح بغاوت کردی۔ اگرچہ اس بغاوت کے نتیجے میں بدرالدین مارے گئے، لیکن حوثی تحریک دم توڑنے کی بجائے مزید تقویت پاگئی۔ یہاں تک کہ 2011-12ء میں بپا کی گئی شورش کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کی 1978ء سے قائم طویل دور اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ عبداللہ صالح کی معزولی کے بعد یمن کے زمام اقتدار پر عبدربہ منصور ہادی براجمان ہوئے۔ ان کے صدر بنے دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ یمن ایک بار پھر شدید بحران سے دوچار ہوا۔

ملک یمن میں گزشتہ اڑھائی عشرے سے جاری کشمکش اور تحریکوں کے اتار چڑھائو کا جائزہ لیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس خطے کی کیفیت ان ممالک سے ذرا مختلف نہیں تھی، جہاں حکومتوں اور فشاری گروہوں کے درمیان حصولِ مفادات کی جنگ لڑی جا رہی ہو۔ حوثیوں کی گزشتہ بغاوتیں علی عبداللہ صالح کے خلاف ہی رہی ہے، اگرچہ وہ ان کے ہم عقیدہ یعنی زیدی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم منصور ہادی کے خلاف حالیہ حوثی بغاوت بالکل الگ شناخت اختیار کرچکی ہے۔ یعنی یمن کے موجودہ بحران کو شیعہ سنی فسادات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس بات سے ذرا بھی اختلاف ممکن نہیں کہ حوثی باغیوں کی امداد حسین بدرالدین کے دور سے عبدالمالک الحوثی تک ایران ہی کرتا آ رہا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ سعودی عرب یمن کی قانونی حکومت کے تحفظ کے لیے حوثی باغیوں کے خلاف اتحادیوں کی مدد سے آپریشن ”فیصلہ کن طوفان” میں مصروف ہے۔ سعودی شاہ کی درخواست پر پاکستان نے بھی سعودی عرب کو بھرپور مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دوسری طرف ایران سعودی عرب کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہوئے، یمن کے تنازع پر اسے باز رہنے کی تنبیہ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو مدد فراہم کرکے سعودی عرب کے دفاع کو خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کے مسلمان سرزمین حرمین الشریفین کو اپنا روحانی مرکز سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان، ترکی، مصر سمیت خلیجی ریاستیں بھی سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہر طرح کے تعاون پر تیار ہیں۔ شرم الشیخ میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں مشترکہ فوج بنانے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا ہے۔

Saudi Arab

Saudi Arab

مشرق وسطی کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عرب ممالک کے اتحاد اور ایران کے مشرق وسطی میں بڑھتے ہوئے اثرات نے گویا کہ خطے میں شیعہ بمقابلہ سنی کی فضا پیدا کردی ہے۔ لبنان، شام اور عراق کی صورت حال سب کے سامنے ہے، جہاں فرقہ وارانہ رنگ نے غلبہ پاکر خطے کو بڑے خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ایران سعودی عرب کو سنی جنگجوئوں کا پشتیبان سمجھ رہا ہے۔ تو سعودی عرب شام، عراق، یمن میں ایران کی مداخلت کو خطے کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے۔ اس تناظر میں یمن کی بھڑکتی ہوئی آگ نے مشرق وسطی کا منظر نامہ مزید دھندلا کردیا ہے۔ ایران کے جوہری توانائی کے حصول کے لیے جدوجہد کے ساتھ ہی خطہ عدم توازن کی کیفیت سے دوچار ہوگیا تھا۔ تاہم اب عرب ممالک کا اپنے دفاع کے لیے پریشان ہونا اس امر کو ظاہر کر رہا ہے کہ جزیرہ عرب اور اطراف میں وجود رکھنے والی عرب ریاستیں، چاہے وہ خلیج فارس کے اطراف میں واقع ہو یا بحرِ احمر سے منسلک ہو، ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات سے خائف ہوچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں سعودی عرب نے پاکستان اور ترکی سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔ سعودی دفاع کے لیے وزیراعظم نواز شریف کے فیصلے پر پاکستان میں ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ پاکستان یمن تنازع میں فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنازعات کا پرامن حل گفت و شنید ہی میں پنہاں ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کو لاحق خطرات سے آنکھیں نہیں پھیری جاسکتی۔ اس تناظر میں سرزمین حرمین شریفین کے دفاع کے لیے پاکستان کا کردار لامحالہ فریق کے درجے تک پہنچ سکتا۔ کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب میں اسٹریٹجک معاہدہ موجود ہے۔ جس کی رو سے دونوں ممالک دفاعی معاملات میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

اگر عالم اسلام مشرق وسطی میں توسیع پسندانہ عزائم کا تدارک کرنے میں کامیاب ہوجائے تو امن کا قیام ناممکن نہیں ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مشرق وسطی اس سے قبل برطانیہ عظمیٰ کے تصرف میں رہ چکا ہے۔ لیکن جس طرح برطانوی نوآبادیات کو زوال ہوا، ایسے ہی ایران کی توسیع پسندی بھی یادِ ماضی کا حصہ بن سکتی ہے۔ اب فیصلہ آپ پر ہے کہ حوثی بغاوت کا تدارک کرکے قیام امن کو عزیز رکھتے ہیں یا مفادات کی خاطر مشرق وسطی کو ہولناک آگ کی طرف دھکیل کر اس بحران کو مزید پیچیدہ بنانا چاہتے ہیں؟

Farooq Azam

Farooq Azam

تحریر: فاروق اعظم
farooqazam@yahoo.com
0315-2246038