قربانی کے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں

Hazrat Muhammed (S.A.W.W)

Hazrat Muhammed (S.A.W.W)

قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے ہمارے نبی کریم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اس سنت ابراہیمی کا اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے۔ سنت ابراہیمی کو قرآن و سنت کے مطابق کس طرح ادا کیا جانا چاہے۔ قربانی کی اہمیت۔ قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔ وہ بڑھاپے میں ملنے والے اکلوتے لخت جگر اور نور چشم کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے اور سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل بھی ذبح ہونے کے لیے تیار ہوئے۔ اللہ روئوف والرحیم کو باپ بیٹے کی یہ بے مثال اطاعت اور تابع داری پسند آئی اور انہوں نے بیٹے کے عوض اپنی طرف سے مینڈھا ارسال فرما دیا۔ جس کو حضرت ابراہیم نے ذبح فرمایا اللہ مالک الملک نے ان کی اس سنت کو ان کے بعد آنے والے لوگوں میں ہمیشہ کے لیے جاری فرمادیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ترجمہ:” بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے کیا اس نے میری سنت کو پا لیا۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امت کو بھی تاکید فرمائی کہ ان کا ہر گھرانہ ہر سال قربانی دے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے لوگوں پر نبی امت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ قربانی کرنے والے ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے اس کی دلیل و ہ حدیث ہے جس کو امام مسلم نے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ترجمہ”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمارا قربانی کرنے کا اردہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے بچو۔ مسافر کا قربانی کرنا۔ سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید قربان آگئی تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے۔ قربانی کے جانور کی عمر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امت کے لیے دو دانتا جانور ذبح کرنے کی تلقین کی ۔ امام مسلم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ نے فرمایا دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو وہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دو دانت سے کم عمر دنبہ ذبح کر لو۔ ( دو دانت والے جانور دشوار ہو تو دو دانت سے کم عمر والے بھیڑ کے بچے کی قربانی درست ہے۔ )

خصی اور غیر خصی جانور کی قربانی۔ خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانور کی قربانی کرنا سنت سے ثابت ہے۔ رسول اللہ نے دونوں قسم کے جانوروں کو الگ الگ وقت میں ذبح کیا۔ قربانی کا نماز عید کے بعد کرنا۔ قربانی کے وقت کی ابتداء نماز عید کے بعد ہوتی ہے رسول اللہ نے فرمایا جس نے ہماری نماز پڑھی۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا وہ نماز عید سے واپس آنے سے پہلے قربانی نہ کرے اگر کوئی شخص نماز سے پہلے اپنی قربانی کا جانور ذبح کرے گا تو وہ قربانی شمار نہ ہو گی۔ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کیا و ہ اب اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کرئے۔ قربانی کا جانور کون ذبح کرے۔ سنت مطہر ہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کرنے والہ اپنا جانور خود ذبح کرے اگر کسی دوسرے کو جانور ذبح کروائے تو اس سے کوئی حرج نہیں ہے البتہ افضل یہ ہے کہ وہ خود جانور ذبح کرے اگر عورت کو ذبح کرنے کا سلیقہ ہو تو ان کا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے۔ تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک بکرے کا کافی ہونا۔ متعدد احادیث شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کی غرض سے سارے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکرا ذبح کرنا کفالت کر جاتا ہے۔ امام مسلم کی حضرت عائشہ کے حوالے سے بیان کہ وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مینڈھے کو ذبح کرنے کے لیے پچھاڑ ا اور کہا ترجمہ” اللہ تعالی کے نام کے ساتھ اے اللہ محمد آل محمد اور امت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے قبول فرمائیے۔” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی اور اپنے آل کی طرف سے ایک ہی جانور ذبح کیا بلکہ امت کو بھی اس میں شامل فرما لیا۔ حضرت ابو ہریرہ قربانی کے لیے بکرا لاتے تو ان کے گھر والے کہتے تھے اور ہماری طرف سے، تو وہ جواب میں فرماتے اور یہ بکرا تماری طرف سے بھی ہے۔

Camel - Cow

Camel – Cow

اونٹ اور گائے کی قربانی میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت مطہرہ سے حج اور عیدا لاضحی کے لیے ذبح کئے جانے والے اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ اشخاص کا شریک ہونا سنت سے ثابت ہے۔ امام مسلم نے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے لبیک پکارتے ہوئے روانہ ہوئے تو رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سات آدمی ایک اونٹ یا گائے میں شریک ہوں۔ صحابہ میں سات سات افراد شریک ہوئے اور عیدالاضحی کی قربانی کے لیے ذبح کیے جانے والے اونٹوں میں دس دس افراد شریک ہوئے۔ قربانی کو احسن طریقے سے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جانور کو عمدہ اور اچھے طریقے سے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ امام مسلم نے حضرت شداد بن اوس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں میں نے دو باتیں رسول اللہ سے یاد کیں آپ نے فرمایا یقینا اللہ تعالی نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کر دیا ہے۔ لہذا جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو یعنی ذبح کرنے والے اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔

ذبح کرتے وقت کیا پڑھا جائے۔ مسنون طریقہ یہ ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ و اللہ اکبر، کہا جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی آپۖ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ و اللہ اکبر پڑھا۔ ذبح کے وقت جس کی طرف سے قربانی کی جائے اس کا ذکر کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ ذبح کرتے وقت جس کی طرف سے قربانی کی جائے اس کا ذکر کیا جائے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں عیدالاضحی کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ عیدگاہ حاضر ہوا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد آپ ممبر سے اترے ایک مینڈھے کو لایا گیا اور آپ نے اسے اپنے دستے مبارک سے ذبح فرمایا اور کہا اللہ تعالی ٰ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑئے ہیں یہ قربانی میری طرف سے ہے اور میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے جس نے قربانی نہیں کی۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا قرآن و سنت سے ثابت شدہ طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا کر کے ذبح کیا جائے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمارے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے نشانات قرار دیے ہیں ان میں تمارے لیے بہتری کی بات ہے پس اسے کھڑے کھڑے ذبح کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم۔ قرآن وسنت سے قربانی کا گوشت کھانا کھلانا غریبوں کو دینا سب صورتوں سے ثابت ہے اللہ تعالی نے فرمایا پس قربانی کا گوشت خود بھی کھائو اور بھوکے فقیر کو بھی کھلائو اللہ نے ایک اور جگہ فرمایا پس ان کے گوشت سے خود بھی کھائو اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے کو بھی کھلائو۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے امام شافی رحمتہ اللہ رائے میں مستحب یہ ہے کہ تین حصوں میں برابر تقسیم کیا جائے ایک تہائی خود کھائے ایک تہائی صدقہ کرئے اور ایک تہائی دوسروں کو کھلائے۔ قربانی کے گوشت کا ذخیرہ کرنا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا صدقہ کرنا اور اس کا ذخیرہ کرنا سب جائز اور درست ہے۔ البتہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مفلوک الحال بدوی لوگوں کے مدینہ آنے پر تین دن سے زیادہ کے لیے گوشت کے ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا لیکن پھر اس کے دوسرے سال ذخیرہ کی اجازت دے دی۔ قصاب کو قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت کچھ نہ دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قربانی کے جانور کی کوئی چیز بھی بطوراجرت دینے سے منع فرمایا ہے۔ قصاب کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر اس کی غربت کے پیش نظر دیگر مسکینوں کی طرح قربانی کے جانور میں سے کچھ دیا جائے تو کچھ حرج نہیں۔ (تنبیہہ البتہ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ اس بناء پر قصاب اپنی اجرت میں کمی یا رعایت نہ کرئے اگر ایسا خدشہ ہو تو سلامتی اس میں ہے کہ اس کو قربانی میں کچھ نہ دیا جائے۔

جن جانوروں کی قربانی درست نہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ ایسا جانور قربانی کے لیے خریدے جو صحت مند، چاق چوبند اور حتی الامکان خالی ازعیوب ہو۔ درج ذیل عیوب والے جانور قربانی کے جائز نہیں۔
1 ۔ یک چشم جس کا ایک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو۔
2 ۔ بیمار جس کی بیماری کا واضح ہو۔
3 ۔ لنگڑا جس کا لنگڑا نمایاں ہو۔
4 ۔ بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
5۔ جس کے کان آگے سے کٹ پرلٹک گئے ہوں
6۔ جس کے کان پچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں۔
7 ۔ جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں۔
8 ۔ جس کے کان عرض میں کٹے ہوں یا جس کے کانوں میں سوراخ ہو۔اور جن جانوروں میں سے ان سے بڑا عیب ہو گا ان کی قربانی دینا بھی درست نہیں۔

Javed Hafiz Rahman Kasuri

Javed Hafiz Rahman Kasuri

تحریر : حافظ جاوید الرحمن قصوری