ہیومن رائٹس واچ نے بیروت دھماکوں کو حکام کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ قرار دیا

Beirut Bombings

Beirut Bombings

بیروت (اصل میڈیا ڈیسک) منگل کو ہیومن رائٹس واچ نے لبنانی حکام پر “مجرمانہ” غفلت اور زندگی کے حق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ انسانی حقوق گروپ کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں انکشاف کیا کہ امونیم نائٹریٹ کے گودام میں ہونے والے دھماکےسیاسی اور سیکیورٹی حکام کی ناکامی اور ان کی مجرمانہ لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے دھماکوں میں غفلت برتنے والے سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس آفت کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی سفارش کی ہے۔اس میں کم از کم 214 افراد ہلاک ، 6،500 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔یہ دھماکے بندرگاہ کے ہولڈ نمبر 12میں ذخیرہ کردہ المونیم نائیریٹ کے 2،750 ٹن مواد میں ہوئے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ایک سال قبل ہونے والےان خوفناک دھماکوں کے حوالے سے 126 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں تنظیم نے عہدیداروں اور سیاسی اور سیکیورٹی حکام کی طرف سے کی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دستاویزی شکل میں پیش کیا۔ رپورٹ میں 2013ء میں روسوس بحری جہاز کے ذریعے بندرگاہ تک لائے گئے دھماکہ خیز مواد سے لے کران میں دھماکوں تک کی تمام تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔

تنظیم نے یہ رپورٹ کل مُنگل کو بیروت میں ایک پریس کانفرنس میں پیش کی۔

عہدیداروں کے ساتھ انٹرویو کے علاوہ تنظیم نے بندرگاہ انتظامیہ ، کسٹم ڈائریکٹوریٹ ، پورٹ ملازمین ، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پبلک سیکیورٹی اور اسٹیٹ سیکیورٹی کے دو اعضاء ، وزارت پبلک ورکس اور ٹرانسپورٹ کے کئی اداروں کے درمیان ہونے والے درجنوں خط و کتابت شائع کیے۔ اس میں وزارت خزانہ ، ججوں ، فوج کی قیادت ، جمہوریہ کے صدر اور وزیر اعظم تک تمام کے درمیان ہونےوالے رابطوں کی بھی تفصیلات دی گئی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی تحقیقات نے پہلے ظاہر کیا تھا کہ عہدیدار بہ شمول صدر میکل عون ، اور سیکیورٹی اور عسکری رہ نما کچھ بھی کیے بغیر اس مادہ کو بندرگاہ میں ذخیرہ کرنے کے خطرات سے آگاہ تھے۔

ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا ہے کہ شواہد بتاتے ہیں کہ بہت سے لبنانی عہدیدار لبنانی قانون کے تحت کم از کم مجرمانہ طور پر غفلت برتی جس نے زندگی کے لیے غیر معقول خطرہ پیدا کیا تھا۔

سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ سرکاری عہدیداروں نے بندرگاہ میں امونیم نائٹریٹ کی موجودگی کی وجہ سے موت کے خطرے کا اندازہ لگایا اور قبول کیا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی قانون کے تحت ، یہ عمل قتل عمد یا غیر ارادی قتل کے مترادف ہو سکتا ہے .

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت ، ریاست کی جانب سے زندگی کے خطرات کو روکنے کے لیے کام کرنے میں ناکامی زندگی کے حق کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔

اگرچہ کئی دستاویزات نے عوام کی حفاظت کے لیے امونیم نائٹریٹ کے خطرات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ کچھ خط و کتابت ان خطرات کو واضح کرنے میں ناکام رہے ان میں صرف ماحولیاتی اثرات کا حوالہ دیا گیا۔ متعدد دستاویزات میں مجاز حکام کی ناکامی اور ضروری اقدامات کو چھوڑنا بھی شامل ہے جو مواد کی حفاظت یا اس کی تباہی روکنے کے لیے اٹھائے جا سکتے تھے۔

تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ یہ مواد “آتش گیر یا دھماکہ خیز مواد” کے ساتھ محفوظ کیا گیا تھا۔

آرمی کمانڈ نے صرف اتنا کہا کہ اسے اس مواد کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ یہ امونیم نائٹریٹ کی درآمد ، برآمد اور دوبارہ برآمد کی منظوری کا ذمہ دار تھا۔

تنظیم نے وزارت خزانہ ، پبلک ورکس اور ٹرانسپورٹ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شپمنٹ اور اس کے خطرات کے بارے میں بات چیت کرنے یا مناسب تفتیش کرنے میں ناکام ر ہے۔ بندرگاہ میں کام کرنے والی کسی بھی سیکیورٹی سروسز نے مواد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی منصوبہ یا احتیاطی تدابیر نہیں کی گئیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے بندرگاہ میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کرنے میں مجرمانہ لاپرواہی کامظاہرہ کرنے والے عہدیداروں اور حکام پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔