تین کمینے اور ذلیل، انڈیا، امریکہ، اسرائیل

America,Israel

America,Israel

اے ہلال عید! کیا کہوں وہی عہد گراں بار، حسرتیں لہولہان ہیں، خواہشیں گروی رکھ دی گئی ہیں۔ بچھڑنے والوں کا دکھ اب بھی لہو رلا رہاہے۔ وہی محرومیاں، دوریاں، نارسائیوں کے دکھ حرض و آڑ میں جکڑی ہوئی زندگی، ہم اگر روشن خواب دیکھیں بھی تو کس امید پر؟ چند روزہ حیات بھی عذاب بنا دی جائے تو بندہ جینے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ ہمارا ماضی تو تابناک تھاروشن صبحیں ہمارا اعزار تھیں لیکن مورخ نے ہمیں ہجرت کی نظر کر دیا یہ جو قدم قدم پر شرمندگی ہمارا استقبال کرتی ہے یہ سب اپنا ہی کیا دھرا ہے اور وقت کی وہ نئی دلہن جس کے ماتھے پر نئی صبح کا جھومر تھا ہم سے روٹھ گئی ہے۔ ہمارا کمال اب ملال میں بدل گیا ہے کل ہم روشنی کا استعارہ تھے لیکن آج ہم اندھیرا نور نگر ہیں۔ دریچوں میں اگی حیرانی ہمارا اپنا کمال ہی تو ہے اگر یاد کے قبرستان میں بے گوروکفن لاشے پڑے ہیں۔ تو یہی ہم نے کمال سمجھا ہے آک اگر تاریخ ہم سے نالاں ہے آج اگر اغیار ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں تو سب سے بڑا سبب ہماری اسلام سے دوری آپس کی ناچاقی، تہی دوستی اور کم مائیگی ہے۔ جس نے ہمیں مسرت کی بجائے غموں کا عطیہ دیا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد کہ۔

پیٹر کو د یمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

جہاں لاشوں کے انبار ہوں ، جہاں ناحق انسانوں کا قتل عام دھڑے سے جاری ہو جہاں شہدا کے خون سے گلیاں تر ہوں، جہاں عورتیں بے ردا اور بچے یتیم ہو جائیں جہاں بڑوں کا سایہ سر سے اٹھ جائے جہاں مائیں اپنے جگر گوشوں کی بیگناہی اموات پر ماتم کناں ہوں، جہاں جدائی کا نوحہ زبان زد عام ہو تو اس خطے کے باشندوں کی کیا عید ہو گی۔ ان پر کیا بیت رہی ہو گی۔ عید کے اس پر مسرت موقع پر ان کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہو گی اور اپنوں کی جدائی پر ان کی آنکھیں اشکبار ہوں گی۔ کچھ ایسے ہی حالات فلسطین میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کی غزہ میں ٹینکوں کی بمباری کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی لقمہ اجل بن کر ابدی نیند سو کر جنت الفردوس میں اپنا ٹھکانہ بنا چکے ہیں۔

Palestinian

Palestinian

فلسطین پر اسرائیلی بربریت کو جاری ہوئے ایک مہینہ بیت چکا ہے۔ اوراس دوران مجموعی طور پر شہید ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد تقریبا 1000 سے تجاوز کر گئی ہے اسرائیلی حکمرانوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فلسطین کے نہتے عوام کا گھرائو کر کے ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیئے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب مشرق وسطی (فلسطینی) کو ایک نئی اور بہت بڑی دشواری کا سامنا ہے شام اور عراق میں قتل و غارت گری کا بازار سجا ہوا ہے ایک اطلاع کے مطابق یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم عراق میں کردستان نامی نئی ریاست کے قیام کے لیئے بہت متحرک ہے اور اگر یہ ریاست قائم ہو گئی تو اس کا قیام صرف عراق تک محدود نہیں رہے گا۔

بلکہ اس کے اثرات ایران ، شام، ترقی تک مرتب ہوں گے امریکہ ان کا سرغنہ ہے جو تیل والے علاقوں پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اور اسرائیل نے داعش کی شکل میں ایک ایسی مسلح تنظیم مسلط کر دی ہے جو اپنا ایک خاص ایجنڈا رکھتی ہے 2008 میں بھی اسرائیل نے آپریشن لیڈ کاسٹ کے نام سے حملہ کیا تھا جس میں 7 دن کی فضائی بمباری اور 15 دن تک کے فضائی حملے شامل تھے ان حملوں میں 1166 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے جن حملوں کو لڑائی گردان کر اقوام عالم کو گمراہ کیا ہے اس لڑائی میں اسرائیلی حکمرانوں کے بیانات کے مطابق کل 10فوجی مارے گئے ہیں۔ جن میں چار فرنیڈلی فائرنگ کا شکار ہوئے ہیں اسرائیل 2008 کی بربریت کے دوران بھی صرف 3 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام حماس پر عائد کر سکا جس کے نتیجے میں 1166 بے گناہوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ 8 جولائی کے حالیہ حملوں کا جواز بھی جن 3 اسرائیلی نوجواں کی گمشدگی کو بنایا گیا ہے ان کے بارے میں اعتراف ہے کہ حکومت کے پاس ایسے ہی شواہد نہیں جو ثابت کر سکیں کہ ان کی ہلاکت میں فلسطین ملوث ہے مگر اس کے باوجود غزہ کی بیٹی کو خون سے نہلایا جا رہا ہے اور غزہ میں اسرائیل کی درندگی رکنے کا نام نہیں لے رہی اسرائیل کی طرف سے فلسطین پہ یہ پہلا حملہ نہیں بلکہ فلسطین کو اسرائیل بربیت کا سامنا کرتے ہوئے 65 برس بیت چکے ہیں جو کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ بنتا ہے۔

Muslim Ummah

Muslim Ummah

ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک جسم کی ماند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم کانپ اٹھتا ہے اور اس تکلیف کو یکساں محسوس کرتا ہے۔ ہم سب مسلمان ممالک ایک جسم کی مانند ہیں اور فلسطین ہماراحصہ ہے امت مسلمہ کو چپ نہیں سادھنی چاہیے بلکہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیئے تاکہ ہم سب ملکر یہود و نصاری کے ناپاک عزائم خاک میں ملا سکیں تاکہ آئندہ کوئی صیہونی طاقت کسی مسلم ریاست کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے

Syed Mubarak Ali Shamsi

Syed Mubarak Ali Shamsi

تحریر: سید مبارک علی شمسی