گداگری کاروبار یا مجبوری

Begging

Begging

” اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابا” اس جملے کو ہم روزانہ سڑکوں، بازاروں اور فٹ پاتھوں پر سنتے ہیں مگر اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتے صرف ”معاف کرو” پر ہی اکتفادہ کر کے جان چھڑانا مناسب سمجھتے ہیں مگراس جملے کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی داستان اور کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے یا تو ایک بوڑھی ماں بھوک سے نڈھال ہوتی ہے اور منتظر رہتی ہے کہ اس کا معصوم بیٹا سڑکوں پر ہاتھ پھیلا کر کچھ لائے جس سے وہ اپنی بھوک مٹاسکے یا پھر ایک گروہ کا سربراہ اس انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے کہ یہ معصوم کچھ لائے وہ انہیں لیکر جیب میں ڈال دیں پھر اس معصوم کو کسی دوسری طرف بھیج دیں۔

قارئین کرام! آپ نے ایک مشہور جملہ سنا ہو گا کہ ہر مسکرانے والا دوست نہیں ہوتا بالکل اسی طرح ہرمجبور بھکاری نہیں ہوتااور ہر بھکاری مجبور نہیں ہوتا۔ ہر دولت مند کے پاس پیسہ حلال کا نہیں ہوتا مگر ہر دولت مند کے پاس پیسہ حرام کا بھی نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایک تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ سعودی عربیہ کے مقدس شہر مدینہ میں ایک بھکاری گرفتار ہوا ہے جس کے اکائونٹ میں 12 لاکھ سعودی ریال تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک انتہائی مہنگے جیپ کے بھی مالک تھے جس پر وہ سواری کرتے ہیں وہ خلیجی ممالک سے سیاحتی ویزے پر اپنے بیوی اور تین بچوں سمیت آیا تھا اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مغربی شہر نبع میں ایک عالی شان اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا ۔ اس واقعے کو پڑ ھنے کے بعد ذہن میں اس سوچ کو تقویت ملی کہ گداگری آج کل ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے مختلف گروہوں نے اس مقصد کیلئے مراکز قائم کئے ہیں جہاں بچوں کو بھیک مانگنے کی تربیت دی جا تی ہے مگر یہ خیال اس وقت تبدیل ہوئی جب ہم نے بذات خود مشاہدہ کیا۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

اک روز ہم کچھ دوست ایک جگہ بیٹھ کر وقت گزاری کی خاطر گپیں ہانک رہے تھیں کہ ایک معصوم بچہ خیرات مانگنے کی غرض سے وہاںآیا اور سوالیہ انداز میں اللہ کا نام لیکر بھیک طلب کی اور یہ دہائی بھی دیتا رہا کہ اس کے گھر میں آٹا نہیں ہے آپ پیسہ نہ دیں بلکہ آپ آٹا لیکر دیں ۔ہم اسے اس وقت تک عادت سے مجبور ایک عام گداگر سمجھ رہے تھے اس وجہ سے دوست اسے ستارہے تھے تاکہ وہ اپنی یہ عادت چھوڑ دیںمگر اس کے باوجود وہ بضد تھا کہ آپ مجھے آٹالیکر دیں ہمارے گھر میں آٹا نہیں ہے تو ایک دوست نے تفتیشی انداز میں اس سے سوال و جواب شروع کردی کہ آپ کہاں رہتے ہو؟؟ آپ کے گھر میں آٹا کیوں نہیں ہے؟؟ آپ کے والد کہاں ہیں؟؟ آپ کتنے بھائی ہو ؟؟ آپ کے رشتے دار آپ لوگوں ک ساتھ تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں ؟؟ کیوں آپ بھیک جیسی لعنت کو چھوڑ نہیں دیتے۔؟

یہاں پر ان چھبتی سوالات کاجس بھر پور اعتماد کے ساتھ اس نے جواب دیا اس کی وہ اعتماد ایک بالکل الگ ہی داستان سنا رہی تھی پھر ہمارے اس تفتیشی افسر صاحب نے اعتماد جانچنے کیلئے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے اس بچے سے کہا کہ آپ کو مدرسے میں داخل کرتے ہیں وہاں آپ کو سب کچھ مل جائے گا ( کیونکہ اس عمرمیں اکثر بچے مدرسہ اور اسکول کے نام سے ڈرتے ہیں ان کی ذہن میں اسکول اور مدرسہ کسی انتہائی خطرناک جگہ کا نام ہوتا ہے) مگر وہ بچہ مدرسہ جانے کیلئے اس شرط پر تیار تھا کہ اگر اسے مدرسے میں آٹا مل جائے گا تو وہ جائے گا کیونکہ اس کے بوڑھے والدین تین دن سے بھوکے ہیں اور ان کی بھوک مٹانے کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔عمر کی اس سطح پر اس کا یہ جواب ایک مجبوری، ایک بے بسی ،ایک کمزوری اور ایک لاچارگی کاداستان سنا رہا تھا اور ان مقتدر حلقوںسے سوال کر رہا تھا کہ کیوں آخر وہ حلقے اس کردار کو سڑکوں پر ہاتھ پھیلانے کے بجائے آج تک اسکول میں بٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ؟

ان حلقوں سے بھی سوال کر رہاتھاجن کی سیاست کا محور ہی غریب ہی ہوتا ہے جو غریب کے نام کو سیڑھی بنا کراقتدار کی کرسی تک رسائی حاصل کرتے ہیں پھر اپنے ارد گرد لالچی خوشامدیوں اور دولت کے پجاری حواریوں کے حصار سے نکل کر غریب کیلئے ایک منٹ سوچنے کیلئے بھی ان کے پاس وقت نہیں بچتا ۔۔۔۔۔ اوپر بیان کئے گئے دونوں واقعات ہمارے معاشرے میں موجود ایک ہی تصویر کے دو رخ بیان کرتے ہیں ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج کل مختلف گروہ سرگرم ہیں جنہوں نے اپنے مراکز قائم کئے ہوئے ہیں جہاں وہ چھوٹے بچوں کو بھیک مانگنے کی تربیت دیتے ہیں پھر انہیں سڑکوں، بازاروں میں بھیک مانگنے کیلئے بھیج دیتے ہیں ان کیلئے تو گداگری کسی منافع بخش کاروبار سے کم نہیں ہے وہ اپنے اس مقصد کیلئے چھوٹے بچوں کو اغوا بھی کرتے ہیں پھر انہیں اپنے مراکز میں لیجاکرمعزور بنانے کیلئے مختلف طبعی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں ان گروہوں کو پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کے عیوض وہ پولیس کو باقائد کچھ پہنچاتے ہیں جسے چاہے ہفتہ کہیں یا چائے پانی کہیں یا پھر پروٹیکشن منی (Protection money) کوئی فرق نہیں پڑتا۔

NGOs

NGOs

مگر اسی تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے کہ جس کی نشاندہی دوسرے واقعے میں کی گئی ہے کہ معصوم بچے صرف اس وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ ان کے گھر میں کمانے والاکوئی نہیں ہے وہ اپنی گھریلو کفالت کیلئے در در بھیک مانگنے اور ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیںان معصوم بچوں سے ان کے بوڑھے والدین کی بھوک برداشت نہیں ہوتی ہے پھر یہ معصوم ہاتھ بھیک مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تا کہ وہ اپنے والدین کی بھوک کو مٹا سکیں۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتی کہ سونامی آرہی ہے یاجارہی ہے؟؟؟ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ 14اگست کو یوم آزادی ہے یا آزادی مارچ؟؟؟ انہیں اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ یوم انقلاب کا اعلان کب ہو گا؟؟؟ان کیلئے یہ بھی اہم نہیں ہوتا کہ شیخ رشید کتنے آدمیوں کے ساتھ آزادی مارچ میں شرکت کرے گی اور سراج الحق کا کردار کیا ہو گا؟؟؟ وہ صرف یہ جانتی ہے کہ انہیں اپنے بوڑھے والدین کی بھوک مٹانی ہے ۔یاد رہے کہ اس مقصد کیلئے اگر آج وہ ہاتھ پھیلا رہے ہیں تو کل وہ اس مقصد کیلئے بندوق ہاتھ میں لیکر دہشت گرد یا ڈاکو بھی بن سکتے ہے۔ وہ آج بھیک مانگ رہے ہیں تو کل وہ قتل یا ڈکیتی بھی کر سکتے ہیں۔

ہمارے حکمران طبقات کو ہمارے سیاستدانوں کو، ہمارے مذہبی رہنمائوں کو، ہمارے دانشوروں کو اور ہمارے نام نہاد این جی اوز کو معاشرے میں موجود دونوں کرداروں کے متعلق آج سوچنا ہو گا اور انہیں جائز حقوق دلانے کیلئے کردار ادا کر کے عوام کو ڈاکوئوں سے نجات دلانا ہو گا اور معاشرے میں موجود بے بس اور مجبور نوجوانوں کو ڈاکو یا دہشت گرد بننے سے بچانا ہو گا۔

Hizbullah Mujahid

Hizbullah Mujahid

تحریر: حذب اللہ مجاہد