سمندری طوفان، سندھ کے ساحلی اضلاع میں ہنگامی حالت کا اعلان

Karachi

Karachi

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ساحلی پٹی کے ساتھ واقع تمام اضلاع میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت ہفتے کے روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں سائیکلون ایمرجنسی کے حوالے سے اجلاس کا انعقاد ہوا، اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے ساحلی پٹی کے ساتھ واقع تمام اضلاع میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا۔

چیف سکریٹری آفس میں ایک کنٹرول روم قائم کرنے کی ہدایت کی، وڈیو لنک کے ذریعے وزیر آبپاشی سہیل انور سیال اور وزیر بلدیات سید ناصر شاہ اور ساحلی پٹی کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرنے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
ڈائریکٹر پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ سردار سرفراز نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر سائیکلون انڈیا کے گجرات کوعبور کرتا ہے تو ٹھٹھہ ، بدین اور میرپورخاص میں70 سے 90 ملی میٹر ، عمرکوٹ میں80 سے 100 ملی میٹر جبکہ تھرپارکر میں230 سے 250 ملی میٹر تک شدید بارش ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر سمندری طوفان کراچی کے مغرب کوعبور کرتا ہے تو اس کا اثر کراچی ، حب ، لسبیلہ ، حیدرآباد اور جامشورو اضلاع پر پڑے گا۔ کراچی میں60 سے80 ملی میٹر بارش ، حیدرآباد میں30 سے 50 ملی میٹر ، جامشورو میں 150-170 ملی میٹر ، دادو 180 سے 200 ملی میٹر ، بیلہ اور سکھر میں80 سے 100 اور جیکب آباد میں 60 سے 80 ملی میٹر بارش ہوسکتی ہے۔

انھوں نے اجلاس کو بتایا کہ ہوا کا دباؤ جنوب مشرق بحرہ عرب کی جانب ایک تیز سائیکلونک اسٹورم ’’تاؤتے‘‘بڑھ رہا ہے، جنوب مشرقی کراچی کے اطراف زیادہ سے زیادہ تیز ہوائیں سسٹم سینٹر میں120 کلومیٹر فی گھنٹہ یا 110-90 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں ۔

میٹ آفس اور پی ڈی ایم اے کے ذریعے پیش کردہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی میں انتظامیہ کو نالوں کے چوکنگ پوائنٹس کلیئر کرنے کی ہدایت کی۔

انھوں نے کمشنر کراچی اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سیکو ہدایت کی کہ وہ تمام بل بورڈز ، نیو سائن بورڈز ہٹا دیں اور بلڈروں کو زیر تعمیر عمارتوں کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کریں۔

انھوں نے پی ڈی ایس ایم اے کو ہدایت کی کہ وہ شہر اور دیگر اضلاع میں اْن کی ضرورت کے مطابق ضلعی انتظامیہ کو ڈی واٹرنگ مشینیں ، جنریٹر فراہم کریں ۔

مراد علی شاہ نے ماہی گیروں کو ہدایت کی کہ وہ کل سے ماہی گیری کے لیے گہرے سمندر میں نہ جائیں۔ و وزیر اعلی سندھ نے تھرپارکر ضلعی انتظامیہ کو غیر معمولی اقدامات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ اس بار شدید بارش کی توقع کی جارہی ہے، تمام ضلعی انتظامیہ کو متبادل رہائش کے انتظامات کرنے چاہئیں، اگر لوگوں کو شفٹ کرنا ضروری ہوجائے توان کے متبادل رہائش کا بندوبست ہو۔

مراد علی شاہ نے صوبائی وزیربلدیات سید ناصر شاہ اور وزیر آبادکاری فراز ڈیرو کوہدایت کی کہ وہ کراچی میں قیام کریں اور انتظامات کی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔دریں اثنا وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سائیکلون “تاوتے” کے حوالے سے سیکریٹری محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن محمد حنیف چنہ کی سربراہی میں سینٹرل کنٹرول سیل قائم کردیا گیا ۔

کنٹرول سیل 24 گھنٹے متوقع سائیکلون اور رین ایمرجنسی کے متعلق آئی جی پولیس، رینجرز، محکمہ صحت، پی ڈی ایم اے سمیت تمام کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز سے رابطے میں رہے گا اور یہاں سے عوام کے لیے بھی ضروری ہدایات جاری کی جائیں گی۔ سیل کا یہ لائن نمبر 1070 ہے جبکہ دفتر کے نمبرز 999222655 اور 92222967 ہیں جبکہ واٹس ایپ نمبر 03170266875 اور ای میل ایڈریس @gmail.com rainemergencyہے۔

’’تاؤتے‘‘ نے ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار مشکل میں ڈال دیا

بحیرۂ عرب میں اٹھنے والے طوفان ’’تاؤتے‘‘ نے ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار مشکل میں ڈال دیا، سمندری طوفان کی وجہ سے موجیں بپھرنے لگیں جس کے بعد سمندر میں شکار کیلیے جانے والی ماہی گیروں کی کشتیوں کو جلد ازجلد ساحل یا محفوظ مقامات پر پہنچنے کی ہدایت کردی گئی۔ الرٹ جاری ہونے کے بعد بڑی تعداد میں کشتیاں سندھ بلوچستان کے ساحلی مقامات اور کراچی کی جیٹیوں پر واپس آنا شروع ہوگئیں۔

سمندر میں نکلنے کی تیاری کرنے والی کشتیوں کے لنگر بھی گرادیے گئے۔ شکار ترک کرکے واپس آنے پر ماہی گیروں کوبھاری نقصانات کا سامنا ہے، ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ طوفان تو گزر جائے گا لیکن مہنگائی اور لاک ڈاؤن کی مشکلات کا سامنا کرنے والے ہزاروں ماہی گیر خاندانوں کو غربت کی لکیر سے اور نیچے دھکیل جائے گا۔ کراچی میں ماہی گیروں کی قدیم بستی ابراہیم حیدری کے مکین ’’تاؤتے‘‘ کی تباہ کاریوں سے زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان سے پریشان ہیں۔

ابراہیم حیدری کی جیٹی پر کشتیوں کی آمد کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور1800میں سے لگ بھگ 1350کشتیاں واپس آچکی ہیں ۔ ماہی گیروں کے مطابق ایک بڑی لانچ کم از کم ایک ماہ کے لیے سمندر میں جاتی ہے اور اس پر 25سے 30لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔

ماہی گیروں نے کہا کہ انھیں کسی سرکاری معاونت کی امید نہیں ہے اور جیسے ہی طوفان ٹلے گا وہ جلد از جلد سمندر میں روانہ ہوں گے تاکہ روزگار کے سلسلے کو بحال کر سکیں۔

راولپنڈی رنگ روڈ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر کمیٹی کے دوممبران کے د ستخط نہ کرنے کا ثبوت ایکسپریس نے حاصل کرلیا، کنوینر کمیٹی کمشنر سید گلزار حسین نے دستخط نہ کرنے والے افسران کو سابق کمشنر محمد محمود سے مفادات کا ٹکرائو قرار دیا تھا، پنجاب حکومت کو کمیٹی کے دو ممبران کے دستحط کے بغیر 33 صفحات کی رپورٹ پیش کی گئی۔

تین میں سے دو ممبران نے رپورٹ کو حقائق سے منافی قرار دیتے ہوئے دستخط سے انکار کیا تھا ، رپورٹ پر دستخط نہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ انوار الحق کو او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا ، ماہرین نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو متنازع اقلیتی رپورٹ قرار دیتے ہوئے دوبارہ تحقیقات کا مشورہ دیا تھا ۔ ایکسپریس کو موصول تحریری رپورٹ میں کنونئیر کمیٹی کمشنر سید گلزار حسین شاہ نے دو ممبران کے دستخط نہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر شدید تحفظات کی وجہ سے دو ممبران نے دستحط کرنے سے انکار کیا تھا، سابق ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن رٹائرڈانوار الحق اور ایڈیشنل کمشنر کوارڈنیشن جہانگیر احمد نے دستخط سے انکار کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں ممبران نے رپورٹ پر اختلافی نوٹ لکھے تھے ، کنونیر کمیٹی نے اختلافی نوٹ بھی مفصل رپورٹ کے ساتھ اٹیچ نہیں کیے تھے ۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی بھی تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے تین میں سے دو ممبران کا اختلافی نوٹ اس بات کی دلیل ہے کہ رپورٹ متنازع ہوچکی جبکہ کمشنر راولپنڈی سید گلزار حسین شاہ نے اپنی رپورٹ میں اعتراف بھی کرلیا کہ دو ممبران نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر دستخط نہیں کیے ، اس کے باوجود اقلیتی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پنجاب حکومت کو ارسال کی گئی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اقلیتی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو کسی بھی مناسب فورم پر چیلنج کرنا نہایت آسان ہوجاتا ہے، حکومت کسی بھی قانونی پچیدگی سے بچنے کے لیے دوبارہ تحقیقات کرائے۔ دوسری جانب کنونیر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کمشنر سید گلزار حسین شاہ سے موقف لینے کی متعدد کوششیں کی گئی لیکن انھوں نے موقف نہیں دیا۔