مہاجر باپ اور بیٹی کی اس تصویر نے دل دہلا دیے

Mexico US Border Migrant Deaths

Mexico US Border Migrant Deaths

میکسیکو (جیوڈیسک) یہ والد اپنی بیٹی کے ساتھ سرحد عبور کرتے ہوئے امریکا میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن دونوں ہی دریائے ’ریو گرانڈے‘ میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ دل دہلا دینے والی یہ تصویر شمالی امریکا میں مہاجرین سے متعلق سیاست کا رخ بدل سکتی ہے۔

یہ تصویر السلواڈور کے ایک پچیس سالہ باپ کی ہے، جو اپنی تقریباﹰ دو سالہ بیٹی کے ہمراہ میکسیکو کی سرحد عبور کر کے امریکا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ باپ بیٹی کے چہرے اس سرحدی دریا کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بہتر مستقبل کا خواب دل میں لیے گھر سے نکلنے والے اس باپ اور اس کی بیٹی کی لاشیں پیر کے روز میکسیکو کے علاقے میٹامورس سے ملیں۔

میکسیکو کے حکام کے مطابق اوسکار آر اور اس کی اہلیہ تانیا اے نے اتوار کو یہ دریا عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دریا کو عبور کرنا خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ والد نے اپنی چھوٹی بیٹی والیریا کو اپنی ٹی شرٹ کے نیچے کمر پر اپنے ساتھ چمٹا رکھا تھا تاکہ وہ محفوظ رہے۔ لیکن تیز لہریں دونوں کو ہی بہا کر لے گئیں اور اکیس سالہ تانیا کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی اور خاوند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گئے۔

یہ تصویر سب سے پہلے میکسیکو کے اخبار ‘لا جورناڈا‘ نے شائع کی تھی۔ اس اخبار کے مطابق باپ اپنی بیٹی کو دریا کے دوسرے کنارے تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو وہاں چھوڑا اور واپس میکسیکو کی سرحد کی طرف آیا تاکہ وہ اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے جا سکے لیکن پیچھے سے چھوٹی بیٹی نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ زندہ بچ جانے والی تانیا کا اس اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ والد نے بیٹی کو پکڑ لیا تھا لیکن دونوں کو پانی کی تیز لہریں اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔ اس کے بعد امدادی ٹیمیں انہیں تلاش کرتی رہیں لیکن پیر کو پانچ سو میٹر دور ان کی لاشیں ملیں۔

اس تصویر نے شام کے اس تین سالہ بچے ایلان کردی کی یاد تازہ کر دی ہے، جس کی لاش سن دو ہزار پندرہ میں ترکی کے ایک ساحل سے ملی تھی۔

میکسیکو کی حکومت کو ان دنوں مہاجرین کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ امریکی صدر نے مہاجرین کو روکنے کے لیے میکسیکن حکومت پر شدید دباؤ ڈال رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکا میں قائم کیے گئے کم سن مہاجرین کے کیمپوں کی صورتحال کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان کیمپوں میں کئی چھوٹے بچوں کو ان کے والدین کے بغیر رکھا گیا ہے اور انہیں مناسب طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔