اہمیت…اہلیت …..حمیت

Inflation

Inflation

نواز لیگ کی وفاق کی پچ پر تیسری باری کو ایک سال ہوا چاہتا ہے۔ یاد پڑتا ہے مئی کی اسی گر می میں، سالِ گزشتہ اس پارٹی کو حکومت بنانے کو ”مینڈٹ ملا تھا۔ ایک سال عبوری مدد کا پانچواں حصہ ہے(اگر پوری باری نہ ملے تو یہ عرصہ ایک تہائی مدت بھی بن جایا کرتا ہے)۔ اس پارٹی نے جب اقتدار سنبھالا تھاتو عوام کو ان سے حد درجہ توقعات وابستہ تھیں۔(خصوصاً ٰ ٰ …..امن امان، توانائی بحران اور مہنگائی کا طوفان کے حوالے سے)۔ان توقعات کو ان وعدوں اور دعووں نے بھی خوب خوب تقویت بخشی جو انتخابی مہم کے دوران جوشِ خطابت میں جھاگ اڑا کر کئے جاتے رہے۔

ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنی تجربہ کا ڈھول بھی پیٹا جاتا رہا اور پھرجب یہ پرانے کھلاڑی برسرِ اقتدارآئے تو ان کے سامنے سیاسی حوالے سے کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ موجود نہ تھی۔سکرپٹ لکھاہی کچھ اس انداز سے لکھاگیا تھاکہ دیگر دو بڑی پارٹیاںاپنے اپنے حصے کو کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے کے مصداق مجبوراً وصولنے پرآمادہ دکھائی دیں۔کپتان نے دھاندلی کا سیاپا ڈالنے چاہا تو انکے کان میں یہ پھونک ماری گئی کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، چپکے بیٹھے رہو،اگلی باری آپ کی ہوئی۔پی پی پی کی طرح ان کو کھل کھیلنے اور ناکام ہونے دو۔ سو دھاندلی کا شوراس یقین دہانی کے سبب اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں دب کر رہ گیا۔اوپر سے دہشت گردی کے حوالے سے تمام بڑی پارٹیوں کا تقریباً یکساں مؤقف بھی نواز حکومت کیلئے غیبی امداد ثابت ہوا۔

حیر ت انگیز طور ابتدائی تین ماہ کا” غورو فکر”اور بے جا لیت ولعل، ن لیگ کی کشتی میں ہلکاسا چھید بھی نہ ڈال سکا۔سو تاخیر کے باوجود بھی اے پی سی کا میدان ان کے ہاتھ رہا اور تمام جماعتوں نے ان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کر لی۔ تب سے اب تک اس اہم ترین مسئلے پر کیا پیش رفت ہوئی،یہ قوم کا ہر فر د جانتا ہے۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور وہ لوگ اپنی پیشن گوئی کے حرف بہ حرف درست ثابت ہونے پرخوب بغلیں بجا رہے ہیں جنہوں نے اول روز سے اسے ”مذاق رات” کہا تھا۔قوم میں”مذاکرات کے ذریعے آخری کوشش کر لینے کوئی حرج نہیں” کا جذبہ کب کاماند پڑ چکا اور اب حکومت، سیاستدان، فوج اور عوام ایک صفحے پر نہیں ۔یک سالہ حکومت کی کارکردگی کا یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس نے اس اہم ترین ایشو کے ”پر امن ترین ”حل کا ایک انتہائی نادرو نایاب واقع گنوا دیا۔مجھے کینیڈا کے شیخ جی یاد آگئے۔انہوں نے بھی گذشتہ حکومت کے دستِ ناحق پر بیعت فرما کر کسی بھی انقلاب کی راہیں، کم از کم اگلے دس سال کے لئے تو مسدود ہی کر ڈالیں اور ”اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا”کی صورتِ حال پیدا فرما دی۔

کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا کی بہترین فوج ،آئی ایس آئی اور پوری قوم مل کر بھی وہ مسئلہ حل نہ کر پائے جس کے ہاتھوں سبھی یکساں طور پر زخم خوردہ ہیں۔میاں جی کی گیڈر سنگھی کا کہیں کوئی نشان نہیں ملتا کہ جس کے سبب مسائل چٹکیوں میں حل کر لینے کا ڈھول پیٹا جاتا تھا۔یہ بات باآسانی کہی جا سکتی ہے کہ اس مسئلہ نمبر ایک میں ہماری یک سالہ سرکا ر بد ترین ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔یہ اور بات کہ ہار تسلیم کرنے پریہ لوگ تیار نہیں۔

Load Shedding

Load Shedding

توانائی کے بحران کا جہاں تک تعلق ہے تو اس حوالے سے یہ بات دیوانوں کو بھی ہنسنے پر مجبور کر دے کہ اقتدار کے ابتدائی چار ماہ (جب کہ مسائل نے ہمارے وزیرِ اعظم کا گلابی گلابی سا کھلا چہرہ کملا اور فطری مسکراہٹ کوچلتا کر دیا تھا)ہم یہی سنتے رہے کہ وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت روزانہ کی بنیاد ہر میٹنگزمنعقد ہورہی ہے جس میں صرف اور صرف ایک ہی مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر زیرِ غور ہے یعنی توانائی کابحران۔پھر اچانک یہ سب یوں بدلا جیسے مشکل میں مفاد پرست دوست بدل جاتے ہیں۔آپ سب نے کئی ایک منصوبوں کے افتتا ح کا تو ضرور سنا لیکن کہیں بھی اس میں میٹرو بس جیسی پھرتی اور جوش وخروش کا شائبہ تک نہیں پایا ہوگا ۔شیر علی کی تمام تر گرج چمک کے باوجود بجلی چوری،اس کی ترسیل میں ضیاع اور واجبات کی وصولی میں کوئی بہتری نہیں دیکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ شارٹ فال مذید فال ہوتا جارہا ہے ۔چند ہی روزقبل وزیر اعظم نے سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر اظہار نا پسندیدگی کیاجس پر مجھے اپنے دلیر آمر یاد آ گئے۔اپنے دور اقتدار میں ،ایک دن موصوف اپنی ترنگ میں فرمانے لگے ”گھی کی قیمت کافی زیادہ ہے میں آئل کمپنیوں کو کہوں گا کہ وہ عوام کو ضرور ریلیف دیں۔(واضح رہے اس وقت 45روپے کلوفروخت ہوتا تھا) آمر کا حکم تھاسو ایکشن کیسے نہ لیا جاتا ۔صرف چند ہی ہفتوں میں گھی کی قیمت سو روپے سے تجاوز کر گئی۔

اب بھی حکومتی سطح پر کسی ریلیف کی بات کی جاتی ہے تا میرا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے ۔اور پھر ریلیف کے حوالے سے میرے بد ترین خدشات درست ثابت ہوتے ہیں ۔آپ کو اپنے قصبہ اوچشریف کا حال بیان کروںتو شاید آپ کو حیرانی ہو کہ گذشتہ تیرہ چودہ سالوں سے ہمارے ہاں رات آٹھ بجے سے دس بجے بجلی نہیں ہوتی ۔نئی حکومت کے آنے سے یہ تبدیلی البتہ ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ ان یہ دس کے بجائے پونے گیارہ بجے لوٹتی ہے۔لگتا ہے کسی حاسد نے ہمارے لئے اس ریلیف کا بندوبست کرایا ہے۔آپ ایک منٹ کے لئے تصور کریں کہ یہ مئی 2013 ہے اور پی پی پی کی حکومت ہے، کیا آپ کو بجلی کے حوالے سے کوئی بہتری دکھائی دیتی ہے؟ میرا خیال ہے دس میں دس کا جواب ہو گا ”ہرگز نہیں۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قلیل المدتی منصوبہ بندی کا کیا عالم ہے۔

اب آتے ہیں مہنگا ئی کی طرف تو اس کی کیفیت سبھی کے چہروں پر لکھی صاف پڑھی جاتی ہے۔مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ اور معاشی سرگرمیوں میں خوف ناک کمی …..یہ ہے اس حکومت کی بہترین کارکردگی۔ڈالر کی قیمت میںکمی، سعودی امداد اور عالمی بنک سے دھڑادھڑ ملنے والے قرضوں کے باوجود بیمار کا حال کہیں سے بھی اچھادکھائی نہیں دیتا۔بلکہ اب تو رہی سہی رونق بھی جاتی رہی ہے۔ غربت کی لکیر عوام کو فقیر بنانے میں لگی ہے اور ڈار سرکار ڈالر کی قیمت کم ہوجانے کا ڈھونڈورا پیٹتے نہیں تھکتے ۔معاشی حوالے سے کسی منصوبہ بندی کے فقدان اور قرض کی مئے پینے کے سبب ان لوگوں کا مدہوش ہونا کچھ ایسا عجوبہ بھی نہیں ہے۔ڈر ہے کہ لوگ جاگے تو انکے ہوش و حواس ٹھکانے پر نہیں لوٹیں گے۔

ایک سال کے بچے عموماً اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سیکھ لیتے ہیں بلکہ اکثر تو پاؤں پاؤں چلنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔کچھ چست و چالاک دوڑے پھرتے ہیں۔نحیف سے نحیف بچہ بھی کم از کم خود سے کھڑا ہونا اور سہارے کی مدد سے اپنے قدموں پرجم کر ٹھہر سکتا ہے۔ اس ایک سالہ حکومت کی حالت نحیف ونزاربچوں جیسی ہے اور اس نے سہارے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کا دامن تھام رکھا ہے۔یہ ایک ایسا سہارہ ہے جو کسی کے بھی پاؤں جمنے نہیں دیتا ،چاہے کسی کی عمر پانچ سال ہی کیوں نہ ہوجائے اور پھر یہ تو ویسے بھی پرانے بچے ہیں۔ تجربہ کار بچے۔ اس مقام پر میں ایک ہی سوال اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں۔وہی خود ہی اندازہ لگائیں کہ کمی کس چیز میں ہے اور اصل خرابی کیا ہے؟؟؟؟ مسائل کو اہمیت نہ دینا……حل کی اہلیت نہ رکھنا ….یا….قومی حمیت سے عاری ہونا۔

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر : صفدر علی حیدری
(sahydri_5@yahoo.com)