جس دن عمران خان نے خود کو سیاستدان سمجھا

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : مسز جمشید

ایک مولوی صاحب روزانہ ندی پار کر کے ایک مسجد میں نماز پڑھانے جاتے اور واپس ندی پار کر کے اپنے گھر جاتے ایک دیہاتی آدمی نے دیکھا مولوی صاحب ندی کے پانی پر ایسے چلتے ہوئے جاتے جیسے خشکی پر چلتے ہیں وہ بڑا حیران ہوا اور روزانہ ہی ان کے پیچھے جا کر یہ نظارہ دیکھتا اس کے دل میں مولوی صاحب کی بڑی جگہ بن گئی وہ ان کو ولی اللہ سمجھنے لگا ایک دن وہ ان کے پاس گیا اور کہا مولوی صاحب آپ یقینا کوئی پہنچی ہوئی ہستی ہیں مجھے بھی وہ اسم اعظم بتا دیں جسے پڑھ کر آپ ندی پار کرتے ہیں میں بھی آپ کی طرح ندی پار کر لیا کروں گا کشتی کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا مولوی صاحب نے کہا بھائی یہ میرا کمال نہیں سب اللہ کی مہربانی ہے میں خلوص نیت سے بسم اللہ پڑھ کر پانی پہ پائوں رکھ دیتا ہوں پار لگانے والی اللہ کی ذات ہے دیہاتی یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا پھر تو میں بھی یہی کرونگا اس نے بسم اللہ پڑھی اور مولوی صاحب کے ساتھ چلتا ہوا پار اتر گیا اب وہ دونوں روزانہ ہی اس طرح اکھٹے آتے جاتے ایک دن ندی چڑھی ہوئی تھی پانی شور کر رہا تھا دیہاتی اور مولوی دونوں ندی پر پہنچے تو مولوی صاحب تذبذب میں پڑ گئے شیطان نے وسوسہ ڈال دیا تو ڈوب جائے گا ایمان میں کمزوری آ گئی۔

انہوں نے کہا نہیں یار آج پانی زوروں پہ ہے اس طرح جانا مناسب نہیں دیہاتی بولا کچھ نہیں ہوتا مولوی صاحب آپ نے خود ہی تو کہا تھا بس ایمان مضبوط ہونا چاہیے بچانے والی ذات تو اللہ کی ہے لیکن مولوی صاحب اندر سے ہل چکے تھے وہ نہ مانے کھڑے رہے اور دیہاتی نے صدق دل سے بسم اللہ پڑھی اور پانی پر چلتا ہوا ندی پار کر گیا اس کہانی میں ایک سبق ہے کہ جب تک آپ اللہ کی ذات پر اندھا اعتماد رکھتے ہو وہ آپ کو جھکنے نہیں دیتا اللہ پر کامل یقین رکھیے ایک بادشاہ کی بیٹی کی ضد تھی میں کسی شہزادے سے نہیں فقیر سے شادی کرونگی جو اللہ پر مکمل یقین رکھتا ہوگا دنیا کا کوئی لالچ اس کے دل میں نہ ہوگا نہ اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر ہوگا آخر بادشاہ نے ایک ایسا جوان ڈھونڈ نکالا جس کو اللہ کے سوا نہ کسی کا خوف تھا نہ کسی سے غرض بادشاہ نے بڑی منت سماجت سے اسے شادی پر راضی کیا ا س شرط پر وہ راضی ہوا کہ کچھ لے گا نہیں اور جس حال میں رہتا ہے۔

اس حال میں شہزادی کو بھی رہنا پڑے گابادشاہ نے یہ شرط منظور کر لی اور اس کے ساتھ بیٹی کی شادی کر کے اسے رخصت کر دیا شہزادی جب رخصت ہو کر اس کی کٹیا میں آئی تو اس نے جھونپڑی کا جائزہ لیا اس کو طاق پہ دھری ایک روٹی نظر آئی اس نے فقیر سے پوچھا یہ کیا ہے فقیر نے جواب دیا ایک روٹی سنبھال کر رکھی تھی میں تو اللہ توکل کر کے سوجایا کرتا تھا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی لیکن آپ کے خیال سے روٹی رکھ لی ایسا نہ ہو کل کچھ بندوبست نہ ہوسکے اور آپ بھوکی رہ جائیں شہزادی غصے سے آگ بگولا ہو گئی اس نے کہا یہ ہے تمھارا توکل جس کی وجہ سے میں نے تم سے شادی کی ؟ارے نادان تم نے یہ سوچا بھی کیسے بھلا جو خدا تمام مخلوق کو رزق دیتا ہے جو تمہیں روٹی دے گا وہ مجھے نہیں دے سکے گا بے چارہ فقیر کانپ گیا اللہ سے معافی مانگی اور روٹی باہر جا کر کسی بھوکے کو دے آیا۔

اللہ پر توکل کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں اس کے لیے بڑا جگرا چاہیے اپنی میں مارنی پڑتی ہے قدم قدم پر زلیل ہونا پڑتا ہے اپنا آپ اللہ کے حوالے کرنا پڑتا ہے ا نسان ایک کمزور مخلوق ہے اس کو اللہ نے مگر ہر مخلوق پر حاوی کیا ہے لیکن وہ اس کو اپنی عقل ،اپنی طاقت سمجھ کر اتراتا ہے اس کی میں اس کو ہلاک کر دیتی ہے جو جتنا ظالم ہوتا ہے اتنی اس کی رسی دراز ہوتی ہے لیکن جب اللہ پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے اس وقت عمران خان کو بڑا محتاط رہنا ہوگا اللہ پر مکمل بھروسہ ہی اسے اس آزمائش میں سرخروکر سکتا ہے وہ خود کو نہ حکمران سمجھے نہ سیاستدان وہ سمجھے کہ اللہ نے اس سے ایک کام لینا ہے اور اس آزمائش میں وہ خود بھی کام آ سکتا ہے لیکن بغیر اپنی جان کی پرواہ کیئے اپنا کام جاری رکھنا ہوگا۔

اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے ایک ایک کر کے کمزور سہارے ٹوٹتے جا رہے ہیں اس نعرے کو نبھانا ہوگا ”ڈٹ کے کھڑا ہے اب عمران ،نیا بنے گا پاکستان ” اب کمزوری دکھانے کا وقت نہیں رہا کرپشن کے بت سے سارے کانٹے نکل چکے ہیں لیکن چہرہ ابھی باقی ہے یا تو اسے روشن کر کے تاریخ عالم میں اپنا نام لکھوا جائو یا کمزور پڑ کے راندہ درگاہ ہو جائو ۔عمران خان تمہیں کوسنے والے چند ہزار یا چند لاکھ ہونگے لیکن تمہیں دعائیں دینے والے کروڑوں ہونگے اور آنے والی نسلیں جن کو تم کرپشن سے پاک ملک دے جائو گے اس ناسور کو اور کوئی ختم نہیں کر سکتا ابھی آزمائش شروع ہوئی ہے ہارون رشید ،حسن نثار جیسے کئی دوست چھوٹیں گے ابھی تو لائن لگنی ہے یہ سب کمزور سہارے ہیں بس ہر ایک اپنی غرض کا بندہ ہے لیکن اللہ اپنے بندے کا ساتھ نہں چھوڑتا یقین ہونا چاہیے ایک در بند ہوتا ہے تو سو در کھلتا ہے تمھارے حق پر ہونے کی یہی بڑی نشانی ہے کہ ایک طرف تم ہو اور دوسری طرف ساری دنیا کے کرپٹ ،چور ،لٹیرے جنھوں نے مال حرام کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں میں ایک سوال ان سب سے پوچھتی ہوں کیا عمران خان نے اپنی عیاشیوں پر پاکستان کا پیسہ لگایاِاپنے دوستوں کو نواز ہ یاپنے رشتہ داروں کو عہدوں پہ لگا یا سٹیٹ بینک،نیشنل بینک ،نادرہ ،پی آئی اے جیسے اہم اداروں میں اپنے بندے بٹھائے ہوں کیا اپنوں کے احتساب میں رکاوٹ بنا؟اس کے انتہائی قریبی دوستوں کو اس سے دور کر دیا گیا کوئی شکایت نہیں کی اس کی وزارت عظمی کے بعد اس کی بہن کو غلط الزام لگا کر رسوا کیا گیا کوئی شکایت نہیں کی وہ بے چاری ابھی تک عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے نہ اس کے ساتھ پروٹو کول کی گاڑیاں ہوتی ہیں نہ کوئی سپاہی تک کیا یہ تبدیلی نہیں ؟مریم صاحبہ جب پیشی پر آتی تھی بیس بیس گاڑیاں آگے پیچھے دوڑ رہی ہوتیں۔

نون لیگ کا سپیکر نون لیگ کو تحفظ دیتا اپوزیشن کے مائک بند کروا دیتا آج پی ٹی آئی کا منتخب سپیکر اپو زیشن کو تحفظ دے رہا ہے کبھی کسی ملزم کو ریمانڈ کے دوران اسمبلی آنے کا اجازت نامہ ملا؟ لیکن نون لیگ والوں کے دوران ریمانڈ سپیکر نے پروڈکشن آرڈر جاری کیے کیا ان کے لیے قانون اور ہے؟ اس نے اپنے پانچ ماہ میں جو کار کردگی دکھائی وہ یہ لوگ تیس سال میں نہیں دکھا سکے قرضے اور سود میں بری طرح ڈوبا ملک ڈیفالٹ ہونے جا رہا تھا لیکن عمران خان نے دوست ممالک کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات کو نہی جہت دیتے ہوئے ملک کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد دی پچھلے دس سال میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں نمایاں کمی آ چکی تھی لیکن ان پانچ ماہ میں پہلی مرتبہ تجارتی خسارے میں کمی آئی ہے اور دس فیصد ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے اگلے تین ماہ میں سعودی عرب ،امارات اور ملائیشیا سے انویسٹ منٹ آ رہی ہے۔

ریفائینریز بننے جا رہی ہیں ،تیل کی دریافت کے لیے کراچی کے سمندر میں کام شروع ہو چکا انشا اللہ معاشی پریشانیاں جلد دور ہونگی پانچ ماہ میں تو نقصان میں چلنے والا ایک کھوکھا تک ٹھیک نہیں ہو سکتا بائیس کروڑ کی آبادی والا ملک کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن معیشت سے لے کر ڈیمز تک ،تعلیمی پالیسیوں سے لیکر بے گھر افراد کی پناہ گاہوں کے قیام تک پونے پانچ ماہ میں جو کچھ عمران خان نے کیا کوئی دوسرا حکمران ستر برس میں نہ کر سکا انشا اللہ جب عمران خان پانچ سال پورے کرے تو ان سب جھوٹے دانشوروں کے چھروں پر پڑی نحوست پوری دنیا دیکھے گی اور میں ضیا شاہد صاحب کو سلام پیش کرتی ہوں ملک کے سب سے قد آور صحافی جنھوں نے صحافت کا مان رکھا ہوا ہے اور بکے نہین جھکے نہیں !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید